دہی
نام :
عربی میں لبن الحامض، لبن الرائب۔ فارسی میں ماست۔ اور ہندی میں दहीکہتے ہیں۔

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)
نام انگلش:
Name: Curd
Scientific name: Fermented Milk
Family:
تاثیری نام: | مقام پیدائش: | مزاج طب یونانی: | مزاج طب پاکستانی: | نفع خاص: |
| مسکن حرارت، مرطب، مسمن بدن اور حابس و قابض | ہند و پاکستان | ترش: خشک سرد شیریں: تر سرد | عضلاتی اعصابی اعصابی عضلاتی | آنتوں کی صحت کے لیے |

تعارف:
دہی دودھ کو مخصوص بیکٹیریا کی مدد سے جما کر تیار کیا جاتا ہے۔ عام طور پر تازہ دودھ کو نیم گرم کر کے اس میں پہلے سے جمی ہوئی دہی کا تھوڑا سا حصہ ڈال دیا جاتا ہے، جو بطور خمیر (Starter Culture) کام کرتا ہے۔ اس عمل میں زیادہ تر لیکٹک ایسڈ بیکٹیریا (Lactic Acid Bacteria) دودھ کی شکر (Lactose) کو خمیر کر کے لیکٹک ایسڈ میں بدل دیتے ہیں، جس سے دودھ گاڑھا، ہلکی ترش مزے والا اور خوشبودار دہی تیار ہوتا ہے۔ دہی سفید رنگ کا، نیم گاڑھا اور ذائقے میں ہلکا کھٹا ہوتا ہے۔
دہی دنیا کی قدیم ترین فرمنٹڈ غذاؤں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کے مطابق تقریباً 5000 سال پہلے وسط ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے لوگ دودھ کو محفوظ کرنے کے لیے دہی بناتے تھے۔ یہ نہ صرف غذائیت سے بھرپور ہے بلکہ ہاضمے کے لیے بھی مفید مانا جاتا ہے۔دہی میں پروبائیوٹک (Probiotics) یعنی فائدہ مند جراثیم پائے جاتے ہیں جو آنتوں کی صحت اور قوتِ مدافعت کو بہتر بناتے ہیں۔ یونانی و آیورویدک طب میں دہی کو قوت بخش، ہاضم اور جسم کی رطوبات کو متوازن رکھنے والا مانا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دہنہ فرہنگ/ دانہ فرہنگ پتھر
یہ بھی پڑھیں: دھنیا
یہ بھی پڑھیں: دہماسہ بوٹی

کیمیاوی و غذائی اجزا:
دہی کی کیمیائی و غذائی ترکیب (USDA کے مطابق فی 100 گرام دہی)
توانائی: تقریباً 60–70 کلو کیلوریز پروٹین: 3.5–4 گرام چکنائی: 3–4 گرام
کاربوہائیڈریٹس: 4–5 گرام (زیادہ تر بطور لیکٹوز)
منرلز
کیلشیم: 120–130 ملی گرام فاسفورس: 90–100 ملی گرام پوٹاشیم: 150–200 ملی گرام
سوڈیم: 40–50 ملی گرام میگنیشیم: 10–15 ملی گرام زنک: 0.3–0.5 ملی گرام
لوہا: 0.05–0.1 ملی گرام سیلینیم: تقریباً 1–2 مائیکروگرام
وٹامنز
وٹامن اے: 40–50 مائیکروگرام وٹامن ڈی: 0.1–0.2 مائیکروگرام وٹامن ای: 0.1 ملی گرام
وٹامن کے: 0.5 مائیکروگرام وٹامن بی1 (تھیامین): 0.1 ملی گرام وٹامن بی2 : 0.3 ملی گرام
وٹامن بی3 (نیا سین): 0.2–0.3 ملی گرام وٹامن بی6: 0.1 ملی گرام فولیٹ (وٹامن بی9): 15–20 مائیکروگرام
وٹامن بی12 (کوبالامین): 0.6–1 مائیکروگرام کولین: 35–40 ملی گرام
بایو ایکٹو مرکبات و اجزاء
لیکٹک ایسڈ: دہی کا بنیادی تیزابی جزو جو دودھ کی شکر (لیکٹوز) کے ٹوٹنے سے بنتا ہے۔
پروبائیوٹکس: Lactobacillus bulgaricus، Streptococcus thermophilus اور دیگر فائدہ مند بیکٹیریا۔
اینٹی آکسیڈنٹ پپٹائیڈز: دہی میں موجود مخصوص پروٹین ٹوٹنے کے بعد صحت بخش بایو ایکٹو پپٹائیڈز فراہم کرتے ہیں۔

اثرات:
دہی عضلات میں تحریک، اعصاب میں تحلیل اور غدد میں تسکین پیدا کرتا ہے، کیمیاوی طور پر خون کے قوام کو گاڑھا کرتا ہے۔ مسکن حرارت، مرطب، مسمن بدن اور حابس و قابض ہے۔
خواص و فوائد
ترش دہی میں خشکی ، جبکہ شیریں دہی میں تری کا غلبہ ہوتا ہے۔ مجموعی لحاظ سے دہی کے مزاج میں عضلاتی مزاج ضرور پایا جاتا ہے۔ لیکن دہی دودھ کا گھی موجود ہوتا ہے جسے پراسس کرکے دہی سے ہی نکالا جاتا ہے، اسی لیے دہی میں خشکی شدید نہیں ہوتی۔ دہی کی بالائی مرطب و منوم ہوتی ہے، اسے جب چہرے پر مالش کریں تو داغ، دھبے رفع ہو جاتے ہیں۔ دہی عضلاتی اعصابی مقوی ہونے کی وجہ سے دست، قے اور ہیضہ کے لیے بہترین دوائے غذا ہے۔ دہی حابس و قابض ہونے کی وجہ سے سیلان الرحم اور سیلان منی، جریان منی کے لیے بے حد مفید ہے۔ منی کے قوام کو گاڑھا کرتا ہے، جس سے قوت باہ میں اضافہ ہوتا ہے۔جب دہی بہت زیادہ ترش ہو کر پانی چھوڑ دے تو اسے ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
دہی کو طب یونانی میں “مسمّن بدن معتدل” کہا جا سکتا ہے۔ یہ بدن کو فربہ کرتا بھی ہے اور موٹاپے کو روکتا بھی ہے، یہ دونوں باتیں مقدار اور کیفیت پر منحصر ہیں، دہی دیگر بھاری غذاؤں کی طرح تیزی سے موٹا کرنے والی چیز نہیں بلکہ اعتدال سے جسم کو متوازن طور پر فربہ اور صحت مند رکھنے والی غذا ہے۔دہی میں پروبائیوٹکس (مفید بیکٹیریا)، کیلشیم، پروٹین اور کم گلیسیمک انڈیکس پایا جاتا ہے۔ یہ اجزاء ہاضمہ بہتر کرتے ہیں، بھوک کو قابو میں رکھتے ہیں، میٹابولزم درست کرتے ہیں اور خون کی چکنائی (کولیسٹرول، ٹرائی گلیسرائیڈز) کم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باقاعدہ اور متوازن مقدار میں دہی کھانے سے وزن کم ہونے میں بھی مدد ملتی ہے۔دوسری طرف اگر دہی زیادہ مقدار میں، خصوصاً بالائی والا دہی یا مٹھاس ملا کر کھایا جائے تو اس میں موجود چکنائی اور توانائی وزن بڑھانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
کومس اور پنیر
جس طرح دودھ میں خمیر پیدا کرکے دہی تیار کیا جاتا ہے، ایسے ہیں دودھ سے ہی کومس اور پنیر بھی تیار کیے جاتے ہیں۔

کومس (Koumiss) کا تعارف
کومِس گھوڑی کے دودھ سے تیار کی جانے والی ایک قدیم خمیر شدہ مشروب ہے۔ اس میں لیکٹک ایسڈ بیکٹیریا (LAB) اور خمیر (yeast) شامل ہوتے ہیں جو دودھ کے شکر (لیکٹوز) کو تیزاب اور دیگر غذائی اجزاء میں بدل دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ ایک پروبائیوٹک (Probiotic) اور فنکشنل فوڈ (Functional food) بن جاتا ہے۔
گھوڑی کے دودھ میں چکنائی کم ہونے کی وجہ سے کیلوریز بھی کم ہوتی ہیں۔ اس میں وٹامن سی، اے، ای، ڈی، بی1، بی2، بی12 وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ تمام ضروری امینو ایسڈز (لائسن، ویلین، لیوسین وغیرہ) موجود ہیں۔ معدنیات اور قدرتی اینٹی بایوٹکس بھی شامل ہیں۔
کومس کے طبی فوائد
تحقیقات کے مطابق کومِس درج ذیل بیماریوں اور حالتوں میں فائدہ مند پایا گیا ہے:
- مدافعتی نظام:جسم کے مدافعتی خلیات کو متوازن اور فعال بناتا ہے۔
- تپِ دق (Tuberculosis):اس کے استعمال سے مریضوں میں 60–91٪ تک شفا کی شرح دیکھی گئی۔
- آنتوں کی صحت:پروبائیوٹکس کے ذریعے آنتوں کی مائیکرو فلورا کو درست رکھتا ہے۔
- کولیسٹرول اور لپڈز:خون میں کولیسٹرول اور نقصان دہ لپڈز کم کرنے میں مددگار۔
- بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر:ان کے اعتدال میں کردار ادا کرتا ہے۔
- اینٹی بیکٹیریل و اینٹی فنگل:نقصان دہ جراثیم کے خلاف مزاحمت۔
- اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات:جسم میں آکسیڈیٹو اسٹریس کم کرتا ہے اور گلوتھایون جیسے حفاظتی اجزاء کو متوازن رکھتا ہے۔
- Toxoplasmosis (چوہوں کے تجربات میں):دماغی سسٹ کی تعداد میں نمایاں کمی اور آنتوں کی مزاحمت میں اضافہ۔
پنیر کا تعارف
پنیر مزاج کے حساب سے گرم تر ہوتا ہے اور اس کی تفصیل لفظ (پ) میں گزر چکی ہے۔ پنیر عام طور پر دودھ میں رینٹ (جما دینے والا مادہ) ڈال کر بنایا جاتا ہے، جس سے دودھ نیم ٹھوس شکل اختیار کر لیتا ہے۔ گائے کے دودھ کے ساتھ بکری اور بھیڑ کے دودھ سے بھی پنیر تیار ہوتا ہے۔ تازہ پنیر جیسے کاٹیج اور کریم پنیر بغیر پختگی کے استعمال ہو جاتے ہیں، جبکہ سخت پنیر جیسے چیڈر اور سوئس کو پکنے (Maturation) کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔
پنیر کے غذائی و طبی فوائد
پنیر ایک مقبول اورغذائیت سے بھرپور غذا ہے جس میں پروٹین، چکنائی، معدنیات اور وٹامنز پائے جاتے ہیں۔ یہ تمام ضروری امینو ایسڈز مہیا کرتا ہے۔ اس میں پایا جانے والا Lactoferrin اینٹی مائیکروبئیل، اینٹی وائرل، اینٹی کینسر اور سوزش کم کرنے والی خصوصیات رکھتا ہے۔
- وٹامنز: وٹامن K2، وٹامن A اور وٹامن E وافر مقدار میں ملتے ہیں۔
- کیلشیم: ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے، بلڈ پریشر کم کرنے اور وزن گھٹانے میں مدد دیتا ہے۔
- مدافعتی نظام: پروبائیوٹک پنیر بزرگوں میں قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔
- اینٹی آکسیڈینٹ: چیڈر پنیر کے اجزا آکسیڈیٹیو اسٹریس کم کرتے ہیں۔
- سوزش (Arthritis): روزانہ 30 گرام پروبائیوٹک پنیر 12 ہفتے تک کھانے سے آرتھرائٹس کی علامات میں بہتری آتی ہے۔
- دانتوں کی صحت: بچوں میں دانتوں کے کیڑا لگنے (Caries) سے بچاؤ میں مدد دیتا ہے۔
- دل کی بیماری: اگرچہ اس میں موجود سیر شدہ چکنائیاں LDL بڑھا سکتی ہیں لیکن متوازن مقدار میں استعمال فائدہ مند ہے۔
حوالہ: این آئی ایچ۔
جدید سائنسی و تحقیقی فوائد
دہی پر کی جانے والی تحقیقات
1. ہڈیوں کی صحت اور آسٹیوپروسس
مطالعہ: 4,310 بالغ افراد پر تحقیق: جو خواتین روزانہ دہی استعمال کرتی تھیں ان میں ہڈیوں کی کثافت (Bone Mineral Density) زیادہ رہی۔اور آسٹیوپروسس کا خطرہ خواتین میں 39% اور مردوں میں 52% کم ہوا۔
2. کینسر سے بچاؤ
مطالعہ: 116 مرد اور 173 خواتین پر تحقیق: دہی (خاص طور پر پروبائیوٹک سے بھرپور دہی) کے زیادہ استعمال سے کولوریکٹل کینسر کا خطرہ کم ہوا، مردوں میں یہ اثر زیادہ نمایاں تھا۔
3. دست (اسہال) سے بچاؤ
مطالعہ: 1–12 سال کے بچے: اینٹی بایوٹک کے استعمال سے ہونے والے اسہال (Antibiotic Associated Diarrhea) میں پروبائیوٹک دہی مؤثر ثابت ہوئی، جب کہ عام دہی کا اثر کم رہا۔
4. ذیابیطس اور جگر کی بیماری
مطالعہ: 40 مریض: مریضوں کو 14 دن تک روزانہ 3 مرتبہ ایک کپ پروبائیوٹک دہی دیا گیا۔نتائج: گلوکوز میٹابولزم اور جگر کی صحت پر مثبت اثرات ظاہر ہوئے۔
5. لیکٹوز عدم برداشت (Lactose Intolerance)
مطالعہ: 55 مریض: دہی جس میں L. acidophilus اور Bifidobacterium شامل تھا، ان مریضوں کے لیے محفوظ اور مؤثر ثابت ہوا، اور لیکٹوز عدم برداشت کے اثرات نمایاں طور پر کم ہوئے۔
6. قبض
مطالعہ: حاملہ خواتین (علاجی گروپ اور کنٹرول گروپ): دونوں گروپس میں دہی کے استعمال سے ہاضمہ بہتر ہوا، لیکن علاجی اور کنٹرول گروپ میں کوئی بڑا فرق سامنے نہیں آیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ دہی ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے۔کینسر کے بعض خطرات کو کم کرتا ہے۔اینٹی بایوٹک سے پیدا ہونے والے اسہال میں فائدہ مند ہے۔ ذیابیطس اور جگر کے امراض پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ لیکٹوز عدم برداشت والے مریض بھی اسے آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہاضمے کو بہتر بنانے میں معاون ہے۔ دہی اور دیگر خمیر شدہ دودھ کی مصنوعات صرف غذائیت ہی نہیں دیتیں بلکہ ان میں موجود پروبائیوٹکس اور بایو ایکٹو اجزاء کی وجہ سے یہ ادویاتی (therapeutic) خصوصیات بھی رکھتی ہیں، اور جدید سائنس انہیں کئی بیماریوں کے علاج و بچاؤ میں کارآمد سمجھتی ہے۔
دہی دراصل پروبائیوٹکس (مفید بیکٹیریا) کا ایک اہم ذریعہ ہے، جو ہمارے نظامِ ہاضمہ اور صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں۔ عام دہی زیادہ تر دو جراثیم سے تیار کیا جاتا ہے: لیکٹو بَیسیلس ڈلبروکی سب اسپیشیز بَلگارِکس (Lactobacillus delbrueckii subsp. bulgaricus) اور اسٹریپٹو کوکس تھرموفِلس (Streptococcus thermophilus)۔ اس کے برعکس پروبائیوٹک دہی میں اضافی مفید بیکٹیریا شامل کیے جاتے ہیں، جیسے بَیفِڈو بیکٹیریَم (Bifidobacterium) اور لیکٹو بَیسیلس ایسڈوفیلس (Lactobacillus acidophilus)۔ یہ جراثیم آنتوں کی مائیکرو فلورا (Microbial flora) میں تنوع پیدا کرتے ہیں، جس سے ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور قوتِ مدافعت مضبوط بنتی ہے۔
حوالہ: پی ایم سی۔
مقدار خوراک:
بقدر ہضم
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.



Leave a Reply