دودھ اونٹنی
نام :
عربی میں لبن الجمل، لبن اللقاع۔ فارسی میں شیر مادہ شتر۔ سندھی میں ڈاچی جوکھیر کہتے ہیں۔

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)
نام انگلش:
Name: Camel milk
Scientific name: Camelus dromedarius
Family: Camelidae
تاثیری نام: | مقام پیدائش: | مزاج طب یونانی: | مزاج طب پاکستانی: | نفع خاص: |
لطیف، مدر بول، دافع صلابت طحال، ملین | عرب، ہند و پاکستان | گرم تر | غدی اعصابی | تمام عضلاتی امراض میں |

تعارف:
اونٹ مشہور عام جانور ہے، جس کے گوشت کے ساتھ ساتھ دودھ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اونٹ کا دودھ تمام دودھوں میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں سے گھی نہیں نکلتا۔ اس کا رنگ سفید، ذائقہ نمکین کھاری ہوتا ہے۔ اونٹ کا دودھ عام گائے یا بھینس کے دودھ سے پتلا اور پانی جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی جھاگ نمایاں ہوتی ہے اور برتن میں ہلانے پر زیادہ بنتی ہے۔ ذائقہ کبھی خوشگوار میٹھا ہوتا ہے اور بعض اوقات چراگاہ اور خوراک کے حساب سے قدرے کھارا یا کڑوا بھی لگتا ہے۔ یہ دودھ دیر تک خراب نہیں ہوتا اور ریگستانی گرمی میں بھی کئی گھنٹے تازہ رہتا ہے۔
اونٹ کا تعلق کیمیلڈی (Camelidae) خاندان سے ہے اور یہ بنیادی طور پر دو اقسام میں پائے جاتے ہیں:
1۔ ایک کوہان والا عربی یا ڈرومیڈری (Dromedary, Camelus dromedarius) ۔
2۔ دو کوہان والا بیکٹریان (Bactrian, Camelus bactrianus)۔
دنیا میں تقریباً تین کروڑ اونٹ موجود ہیں جن میں سے پچانوے فیصد ایک کوہان والے ڈرومیڈری اونٹ ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور عرب دنیا کے خشک و ریگستانی علاقوں میں اونٹ انسانی زندگی کا اہم سہارا ہیں، کیونکہ یہ سواری، کھیل، گوشت اور دودھ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور اس طرح مقامی معیشت اور خوراک کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ اونٹنی کا دودھ دینے کا دورانیہ عموماً نو سے اٹھارہ ماہ تک ہوتا ہے، اور اس کی مقدار نسل، صحت، رہائشی حالات اور دیکھ بھال کے طریقوں کے مطابق مختلف ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دودھ
یہ بھی پڑھیں: دودھی بوٹی
یہ بھی پڑھیں: دوب گھاس
کیمیاوی و غذائی اجزا:
معدنیات
فی 100 ملی لیٹر دودھ:
کیلشیم: تقریباً 114 ملی گرام فاسفورس: تقریباً 58 ملی گرام پوٹاشیم: تقریباً 150 ملی گرام سوڈیم: تقریباً 50 ملی گرام
میگنیشیم: تقریباً 12 ملی گرام آیوڈین: تقریباً 16 مائیکروگرام زنک: تقریباً 0.4 ملی گرام آئرن: تقریباً 0.05 ملی گرام
سیلینیم: تقریباً 2.5 مائیکروگرام
وٹامنز
فی 100 ملی لیٹر دودھ:
وٹامن اے (ریٹینول): تقریباً 46 مائیکروگرام وٹامن ڈی: تقریباً 0.05 مائیکروگرام
وٹامن ای: تقریباً 0.09 ملی گرام وٹامن کے: تقریباً 0.3 مائیکروگرام
وٹامن بی1 (تھامین): تقریباً 0.04 ملی گرام وٹامن بی2 (ریبوفلاوین): تقریباً 0.18 ملی گرام
وٹامن بی3 (نیاسین): تقریباً 0.1 ملی گرام وٹامن بی5 (پینٹوتھینک ایسڈ): تقریباً 0.35 ملی گرام
وٹامن بی6 (پائریڈوکسین): تقریباً 0.04 ملی گرام وٹامن بی7 (بایوٹین): تقریباً 1.5 مائیکروگرام
وٹامن بی9 (فولیٹ): تقریباً 5 مائیکروگرام وٹامن بی12 (کوبالامین): تقریباً 0.4 مائیکروگرام
وٹامن سی: تقریباً 1.0 ملی گرام
پروٹینز اور امائنو ایسڈز
فی 100 ملی لیٹر دودھ:
کیسین (Casein): تقریباً 2.6 گرام وی پروٹین (Whey proteins): تقریباً 0.6 گرام
کل پروٹین: تقریباً 3.2 گرام
اہم امائنو ایسڈز:
فی 100 ملی لیٹر اونٹنی کے دودھ میں
لائسن (Lysine) میتھیونین (Methionine) فینائل ایلانین (Phenylalanine) ٹرپٹوفین (Tryptophan)
لیوسین (Leucine) آئسولیوسین (Isoleucine) ویلین (Valine) ہسٹڈین (Histidine)
تھریونین (Threonine)
مقدار مختلف تحقیقات میں مختلف ہے، عموماً 0.1–0.3 گرام فی 100 ملی لیٹر کے درمیان بتائی گئی ہے۔
چکنائی اور لپڈز
فی 100 ملی لیٹر دودھ:
کل چکنائی: تقریباً 3.5 گرام سیر شدہ فیٹی ایسڈز: تقریباً 2.2 گرام غیر سیر شدہ فیٹی ایسڈز: تقریباً 1.0 گرام
کولیسٹرول: تقریباً 14 ملی گرام فاسفولیپڈز اور سپنگولیپڈز کی معمولی مقدار
شکر اور کاربوہائیڈریٹس
فی 100 ملی لیٹر دودھ:
لیکٹوز (Lactose): تقریباً 4.8 گرام گلوکوز (Glucose): نہایت قلیل مقدار میں
گیلیکٹوز (Galactose): نہایت قلیل مقدار میں
دیگر بایو ایکٹو مرکبات
- امیونوگلوبیولنز (Immunoglobulins) :جو قوتِ مدافعت بڑھاتے ہیں۔
- لیکٹوفرین (Lactoferrin) :آئرن بائنڈنگ پروٹین، اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل اثر رکھتا ہے۔
- لیسوزائم (Lysozyme) :بیکٹیریا کی دیوار توڑنے والا حفاظتی اینزائم۔
- پروبایوٹک پیپٹائیڈز (Probiotic Peptides) : معدے کی صحت بہتر کرتے ہیں، اینٹی مائیکروبیل اثر رکھتے ہیں۔
- ہارمونز (Hormones): انسولین نما پروٹین جو بلڈ شوگر پر اثر ڈال سکتا ہے۔
- اینزائمز (Enzymes) : لیپیس (Lipase)، فاسفیٹیز (Phosphatase)، لیکٹیز (Lactase) وغیرہ جو ہاضمے اور بایولوجیکل افعال میں اہم ہیں۔
- سائٹوکائنز (Cytokines) : مدافعتی نظام کو ریگولیٹ کرنے والے پروٹین۔
- اینٹی آکسیڈنٹ پیپٹائیڈز (Antioxidant Peptides) : خلیوں کو آکسیڈیٹیو نقصان سے بچاتے ہیں۔
حوالہ: پی ایم سی۔
اونٹنی اور گائے کے دودھ کا موازنہ
غذائی اجزاء
اونٹنی کے دودھ میں وٹامن سی کی مقدار گائے کے دودھ کے مقابلے میں 3 سے 5 گنا زیادہ ہے۔ اس میں آئرن، زنک اور میگنیشیم بھی نسبتاً زیادہ ہیں۔ گائے کے دودھ میں وٹامن اے اور بی وٹامنز زیادہ ہوتے ہیں۔
پروٹین اور الرجی
اونٹنی کے دودھ میں بیٹا-لیکٹوکلوبیولن (β-lactoglobulin) نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے یہ الرجی کا سبب کم بنتا ہے۔ گائے کے دودھ میں یہی پروٹین زیادہ ہوتا ہے اور بچوں میں الرجی کی بڑی وجہ ہے۔
لیکٹوز
دونوں میں لیکٹوز پایا جاتا ہے، لیکن اونٹنی کے دودھ میں یہ زیادہ آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے، اسی لیے لیکٹوز انٹالرینٹ افراد کے لیے بھی موزوں ہے۔
طبی اثرات
اونٹنی کے دودھ میں انسولین جیسے پروٹین ہیں جو ذیابیطس میں فائدہ دیتے ہیں، جبکہ گائے کے دودھ میں یہ خاصیت نہیں۔ اس میں موجود بایو ایکٹو پروٹینز (لیکٹوفرین، لائزوائم وغیرہ) اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل خصوصیات فراہم کرتے ہیں۔
چکنائی
اونٹنی کے دودھ میں چکنائی نسبتاً کم اور زیادہ تر غیر سیر شدہ (Unsaturated) فیٹی ایسڈز پر مشتمل ہے، اس لیے دل کی صحت کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے۔گائے کے دودھ میں سیر شدہ (Saturated) فیٹس زیادہ ہوتے ہیں۔
ساری بحث کا خلاصہ یہ کہ اونٹنی کا دودھ گائے کے دودھ کے مقابلے میں زیادہ اینٹی آکسیڈنٹ، اینٹی مائیکروبیل اور ذیابیطس مخالف خصوصیات رکھتا ہے، الرجی کے امکانات کم کرتا ہے، اور ہضم میں بھی آسان ہے۔ البتہ گائے کے دودھ کی پیداوار زیادہ اور غذائی ساخت میں بی وٹامنز اور توانائی کا تناسب بہتر ہے۔
حوالہ: نیشنل لائبریری آف میڈیسن امریکا۔

اثرات:
اونٹنی کا دودھ غدد میں تحریک، اعصاب میں تقویت اور عضلات میں تحلیل پیدا کرتا ہے، کیمیاوی طور پر خون کی خشکی کو ختم کرکے رقت پیدا کرتا ہے، صفراء کی پیدائش کے ساتھ ساتھ صفراء کو خارج بھی کرتا ہے۔ لطیف، مدر بول، دافع صلابت طحال، ملین اثرات رکھتا ہے۔
خواص و فوائد
اونٹنی کا دودھ لطیف اور مدربول ہونے کی وجہ سے جگر کی غدی عضلاتی تحریک میں اس وقت دیا جاتا ہے جب صفراء کے اخراج نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ پاوں پر تہوج ظاہر ہو جائے۔ پیشاب کی مقدار کم ہو جائے۔ اس کے پینے سے پیشاب زیادہ آتا ہے بلکہ پاخانہ بھی پانی کی طرح آتا ہے، جس سے غدی اورام ختم ہو جاتے ہیں اور پیشاب کی جلن ختم ہو جاتی ہے۔ اونٹنی کا دودھ سوزاک، تقطیر بول، بندش بول کے لیے شربت بزوری کے ہمراہ دینا مفید ہے۔ یہ گردہ و مثانہ کی پتھری کو ریزہ ریزہ کرکے نکال دیتا ہے۔ شدید محلل عضلات ہونے کی وجہ سے اس کا مسلسل استعمال تحجر مفاصل کے مریض کے لیے بہت ہی مفید ہے۔
جدید سائنسی و تحقیقی فوائد
اونٹنی کے دودھ کے فوائد و اثرات (سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق)
مدافعتی نظام کی تقویت
اس میں موجود امیونوگلوبیولنز (Immunoglobulins)، لیکٹوفرین (Lactoferrin) اور لائزوائم (Lysozyme) بیکٹیریا اور وائرس کو مارنے میں مدد دیتے ہیں۔ سائٹوکائنز (Cytokines) مدافعتی خلیوں کی کارکردگی بہتر بناتے ہیں۔
اینٹی ڈائبٹک اثرات
اس دودھ میں انسولین جیسے پروٹین پائے جاتے ہیں جو ہاضمے میں تباہ نہیں ہوتے اور خون میں شکر کی سطح کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ کئی کلینیکل اسٹڈیز میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔
اینٹی وائرل اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات
اونٹنی کے دودھ میں ایسے پروٹین ہیں جو ایچ آئی وی (HIV)، ہیپاٹائٹس سی وائرس (HCV)، اور دیگر بیکٹیریا کے خلاف سرگرمی دکھاتے ہیں۔
اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی انفلامیٹری اثرات
اس کے بایو ایکٹو پیپٹائیڈز اور وٹامن سی جسم میں آکسیڈیٹیو اسٹریس کو کم کرتے ہیں۔ سوزش (Inflammation) کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے، خاص طور پر جوڑوں اور آنتوں کی بیماریوں میں۔
کینسر کے خلاف ممکنہ اثرات
کچھ تحقیقات نے دکھایا ہے کہ اونٹنی کے دودھ میں موجود لیکٹوفرین اور پیپٹائیڈز کینسر خلیوں کی افزائش کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
فوڈ الرجی اور آٹزم کے مریضوں میں فائدہ
ریویو کے مطابق بچوں میں فوڈ الرجی، ڈائریا اور آٹزم کے کیسز میں اونٹنی کا دودھ روایتی دودھ کے مقابلے زیادہ بہتر برداشت ہوتا ہے۔
آنتوں اور معدے کی حفاظت
اس میں موجود پروبایوٹک پیپٹائیڈز معدے کی مائیکروفلورا کو بہتر کرتے ہیں، یوں ہاضمے میں بہتری اور انفیکشن سے بچاؤ ہوتا ہے۔
حوالہ: این آئی ایچ۔

مقدار خوراک:
ایک پاو
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Leave a Reply