دندان فیل / ہاتھی دانت
نام :
عربی میں عاج۔ سندھی میں عاج جوبورد اور ہندی میں کہتے ہیں۔

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)
نام انگلش:
Name: Tusk Elephant
Scientific name: Loxodonta africana
Family: Elephantidae
تاثیری نام: | مقام پیدائش: | مزاج طب یونانی: | مزاج طب پاکستانی: | نفع خاص: |
حابس، قابض، مقوی بصارت، مقوی رحم اور معین حمل | ہند و پاکستان | خشک سرد | عضلاتی اعصابی | بلغمی امراض و علامات |

تعارف:
ہاتھی دانت جسے اردو اور فارسی میں عاج کہا جاتا ہے، دراصل ہاتھی کے سامنے نکلے ہوئے لمبے دانت (Tusk) ہوتے ہیں۔ یہ اصل میں ناب دانت (Canine) کی بڑھی ہوئی شکل ہیں، جو مسلسل بڑھتے رہتے ہیں۔ عاج کی ساخت ہڈی جیسی ہوتی ہے مگر یہ زیادہ سخت، ہموار اور نفیس ہوتا ہے۔ یہ مادہ ڈینٹین (Dentine) پر مشتمل ہوتا ہے، جو کیلشیم اور فاسفیٹ کے ساتھ نامیاتی اجزاء پر مبنی ہے۔ ہاتھی دانت میں ایک خاص قسم کے دائرہ دار نمونے پائے جاتے ہیں جنہیں Schreger lines کہا جاتا ہے، جو اس کی پہچان کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ہاتھی کے دانتوں کا رنگ دودھیا سفید یا ہلکا زرد مائل، وقت کے ساتھ قدرے گہرا ہوسکتا ہے۔ان کی ساخت نہایت سخت، چمکدار اور ہموار۔ تراشنے اور پالش کرنے پر خوبصورت جلوا دکھاتا ہے۔ افریقی ہاتھی کا سائنسی نام (Loxodonta africana) اور ایشیائی ہاتھی کا سائنسی نام (Elephas maximus) ہے۔

قدیم زمانے سے ہاتھی دانت کو قیمتی جانوروں کی مصنوعات میں شمار کیا جاتا رہا ہے، مصری تہذیب میں عاج سے کنگھے، زیورات اور مذہبی اشیاء تیار کی جاتی تھیں۔ یونان و روم میں بت تراشی اور شاہی محلات کی آرائش میں استعمال ہوا۔ ہندوستان و چین میں عاج سے چوڑیاں، ہار، شطرنج، مجسمے اور قرآنی رحل تک بنائے گئے۔اسلامی دنیا میں عاج سے بنے تسبیح، خنجر کے دستے اور خطاطی کے اوزار مشہور ہیں۔اس کے علاوہ ہاتھی کے دانت طب کی دنیا میں بھی بطور دوا مستعمل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جنکو بائیلوبا
یہ بھی پڑھیں: دم الاخوین
یہ بھی پڑھیں: درونج عقربی

کیمیاوی و غذائی اجزا:
دندانِ فیل کی کیمیائی ساخت
ہائیڈروکسی اپاٹائٹ (Hydroxyapatite – Ca₁₀(PO₄)₆(OH)₂)
یہ کیلشیم فاسفیٹ کی معدنی شکل ہے جو دندانِ فیل (عاج) کا تقریباً 60 سے 70 فیصد حصہ بناتی ہے۔ یہی مادہ سختی اور مضبوطی عطا کرتا ہے۔
کیلشیم کاربونیٹ (Calcium carbonate)
یہ قلیل مقدار میں موجود ہوتا ہے اور ساخت کی مضبوطی میں حصہ لیتا ہے۔
میگنیشیم اور سوڈیم نمکیات (Magnesium & Sodium salts)
یہ معدنی توازن قائم رکھتے ہیں اور عاج کی کرسٹل ساخت کو مضبوط کرتے ہیں۔
کولیجن – قسم اوّل (Collagen Type I)
یہ ایک بنیادی پروٹین ہے جو دندانِ فیل میں تقریباً 20 سے 25 فیصد پایا جاتا ہے۔ یہی لچک اور طاقت عطا کرتا ہے۔
غیر کولیجنی پروٹینز (Non-collagenous proteins)
یہ مقدار میں کم لیکن اہم ہوتے ہیں، جیسے:
اوسٹیوکلسن (Osteocalcin)
ڈینٹن فاسفو پروٹین (Dentin phosphoprotein) ڈینٹن سیالو پروٹین (Dentin sialoprotein)
اثرات:
دانت ہاتھی عضلات میں تحریک، اعصاب میں تحلیل اور غدد میں تسکین پیدا کرتے ہیں۔ حابس، قابض، مقوی بصارت، مقوی رحم اور معین حمل اثرات رکھتے ہیں۔
خواص و فوائد
دندان فیل مقوی بصر ہونے کی وجہ سے ان کا سرمہ آشوب چشم، نزول الماء یعنی پانی بہنا، دھند، جالا کے لیے مفید ہے۔ حابس و قابض ہونے کی وجہ سے رطوبات کو ختم کرتا ہے، یہاں تک کہ رحم کی رطوبات کو بھی ختم کرتا ہےاور رحم کو حمل کے قابل بناتا ہے، اس مقصد کے لیے برادہ دندان فیل کا فرزجہ بانچھ اور عقر عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ تین دن تک پانچ ماشہ بردہ دندان فیل اور تین ماشہ پھٹکڑی بریاں کا فرزجہ بنا کر رحم کے منہ پر رکھا جاتا ہے، چوتھی رات ایسی عورت سے جماع کیا جائے تو وہ فورا حاملہ ہو جاتی ہے۔
ہاتھی دانت شرعی مسئلہ:
بعض حکماء نے برادہ فیل یعنی ہاتھی کے دانتوں کا برادہ، پیشاب، اور دیگر اجزا کو بطور خوراک بھی بیان کیا ہے، بحیثیت مسلمان چونکہ ہاتھی حرام جانور ہے اس لیے اس کا کوئی عضو بھی خوراکی طور پر استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بڑی حیرت ہوتی ہے کچھ حضرات نے ہاتھی کے پیشاب کو پلانا بھی بیماریوں کے علاج میں لکھا ہے، شرعی حدود کی اتنی پامالی سے کیا حاصل ہوتا ہے؟، ایسی کوئی بیماری نہیں جو صرف ہاتھی کے دانتوں سے ہی ٹھیک ہوسکتی ہو، اس کے متبادل سینکڑوں حلال چیزیں موجود ہیں، اس لیے خوراکی طور پر دندان فیل سے اجتناب کرنا چاہیے۔
جدید سائنسی و تحقیقی فوائد
عاج یعنی ہاتھی دانت بنیادی طور پر ڈینٹین سے بنا ہوتا ہے، جس میں کیلشیم فاسفیٹ (Hydroxyapatite)، کیلشیم کاربونیٹ اور نامیاتی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔اس کی ساخت ہڈی سے مشابہ ہے مگر زیادہ مضبوط اور دیرپا ہے۔طبی طور پر عاج کو دوا کے طور پر براہِ راست استعمال اب تسلیم نہیں کیا جاتا، کیونکہ یہ معدے میں ہضم نہیں ہوتا۔ البتہ اس کے اجزاء کی بناوٹ کا مطالعہ بایومیڈیکل انجینئرنگ میں ہوتا ہے، خاص طور پر مصنوعی ہڈیوں اور دانتوں کی تیاری کے لیے۔ کچھ تحقیقات میں عاج کو بایو میٹیریل (Biomaterial) کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، مثلاً ڈینٹل فلنگ اور بون گرافٹ میں۔

گجراج (Musth) کا استعمال
جب ہاتھی مست ہوتا ہے (یعنی فیزیولوجیکل حالتِ مستی میں، جسے انگریزی میں musth کہتے ہیں)، تو اس کے کانوں کے پیچھے ایک غدود (temporal gland) سے گاڑھی، چکنی اور بعض اوقات جھاگ دار رطوبت خارج ہوتی ہے۔ اس رطوبت کو برصغیر کی روایتی زبان میں مستی فیل یا گجراج کہا جاتا ہے۔ قدیم ہند و یونان طب میں ذکر ملتا ہے کہ لوگ اس رطوبت کو مختلف طلاؤں اور مرہموں میں شامل کرتے تھے۔ کچھ لوگ اسے:
محرکِ اعصاب (نرو ٹانک)، مقوی باہ (جنسی طاقت بڑھانے والا)، یا مفرح (خوشی و سرور پیدا کرنے والا)، سمجھ کر استعمال کرتے تھے۔یہ بات زیادہ تر روایتی عقائد پر مبنی ہے، سائنسی تحقیق پر نہیں۔

سائنسی تحقیق کے مطابق یہ رطوبت دراصل feromones اور ہارمونی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے، جو ہاتھیوں کے آپس میں تعلقات اور غصے یا مستی کے اظہار میں کردار ادا کرتے ہیں۔اس میں فٹی ایسڈز، اسٹی رائیڈز اور پروٹینز جیسے اجزاء پائے گئے ہیں، لیکن انسانوں پر اس کے استعمال کی کوئی مستند میڈیکل یا فارماکولوجیکل تحقیق دستیاب نہیں۔چونکہ یہ ایک جانوری رطوبت ہے، اس میں بیکٹیریا یا دیگر جراثیم بھی موجود ہوسکتے ہیں۔طبِ جدید کے مطابق اس کا استعمال غیر محفوظ ہے۔
مقدار خوراک:
خوردنی استعمال منع ہے۔
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Leave a Reply