نبضوں کی پہچان
طب کی دنیا نبض کو ایک اہم مقام حاصل ہے طبی کتابوں میں بعض مخصوص ناموں کے ساتھ کچھ نبضیں مقرر ہیں اگر ان مخصوص نبضوں کی پہچان کر لی جائے اور ان کی شناخت پر عبور حاصل کر لیا جائے تو طبیب کی حذاقت اور نیک نامی کو چار چاند لگ جاتے ہیں ان مخصوص نبضوں میں ایک نبض مطرقی ہے جس سے مراد( ہتھوڑے کی مانند) نبض ہے اس نبض کا انداز اس طرح ہوتا ہے جیسے آپ ہتھوڑے کو ایک لوہے کی آئرن پر چوٹ لگاتے ہیں تو پہلی چوٹ تو آپ اپنی طاقت صرف کر کے لگاتے ہیں لیکن ہتھوڑا آئرن پر چوٹ لگنے کے بعد ایک دوسری چوٹ خود بخود اچھل کر لگاتا ہے اور یہ دوسری چوٹ پہلی چوٹ سے کم ہوتی ہے اور بعض دفعہ پہلی چوٹ کے بعد دو یا تین اور ہلکی چوٹیں ہتھوڑے سے خود بخود نکل پڑتی ہیں لیکن ایسا اس وقت ہوتا ہے جب پہلی چوٹ زوردار انداز سے اور پوری قوت سے لگائی جائے بعینہ نبض میں بھی اس طرح کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور اس قسم کی نبض کو نبض مطرقی کہتے ہیں
ایسی نبض شریانوں کے انسداد ، سختی اور صلابت دلالت کرتی
نبض اوجاجی
سلسلہ نبض میں آج جس نبض کا میں ذکر کروں گا وہ ہے نبض اوجاجی
اوجاج ٹیڑھے پن کو کہتے ہیں اس قسم کی نبض میں شریان نبض تو بالکل سیدھی اور مستقیم میں ہوتی ہے لیکن جب نبض کو بنظر غائر ملاحظہ کریں گے تو اس میں ٹیڑھا پن پایا جاتا ہے
اس نبض کو اگر نباض محسوس کر لے تو یہ نبض مندرجہ ذیل حالات پر دلالت کرتی ہے
1۔ یہ نبض مریض میں شدید قسم کے کرب و قلق کو ظاہر کرتی ہے
2-اس کے علاؤہ اس قسم کی نبض بےچینی کو ظاہر کرتی ہے اور اس بے چینی کا تعلق کسی مرض سے نہیں ہوتا بلکہ اس بے چینی کا تعلق نفسیاتی اور جذباتی ہوتا ہے
3-اگر کسی مریض میں کرب اور بے چینی یا قلق ، کرب اور اضطراب کی علامتیں نہ ہوں تو پھر اس قسم کی نبض کسی شخص کی ناہموار طبعیت کو ظاہر کرتی ہے مثلاً ایسا شخص مزاجاً ایک طبعیت پر رہنے کی بجائے مختلف جذباتی کیفیات کا حامل ہو گا یعنی پل میں تولہ اور پل میں ماشہ۔۔۔۔
4-اس کے علاؤہ بعض دوہری شخصیت کے حامل افراد کی نبض اوجاجی ہوتی ہے
بعض اعضاء ورموں کو اور درد کو قبول اور محسوس کرنے میں انتہائی ذکی الحس واقع ہوئے ہیں مثلاً حجاب حاجز، معدہ، آنتیں، زائدہ اعور وغیرہ
ان اعضاء کے اورام اور دردوں میں نبض عموماً متشنج ہو جاتی ہے یعنی نبض میں ایک طرح کا تشنج(tension ) ،اور کھچاؤ پیدا ہو جاتا ہے
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Leave a Reply