
دودھی بوٹی
نام :
عربی میں عشبة الربو۔ اور ہندی میں बड़ी दुधी کہتے ہیں۔

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)
نام انگلش:
Name: Asthma weed / Hairy spurge / Pill-bearing spurge
Scientific name: Euphorbia hirta
Family: Euphorbiaceae
تاثیری نام: | مقام پیدائش: | مزاج طب یونانی: | مزاج طب پاکستانی: | نفع خاص: |
قابض،حابس، مخرج بلغم، مصفی | ہند و پاکستان | خشک سرد | عضلاتی اعصابی | بلغمی امراض |

تعارف:
دودھی بوٹی عام طور پر (Euphorbia hirta )کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ ایک چھوٹا، گھاس نما یا کم قد کا خودرو پودا ہے جو گرم اور نیم گرم علاقوں میں راستوں، کھیتوں اور ویران جگہوں پر عام ملتا ہے۔ اس کی ایک نمایاں خصوصیت اس کے تنا یا پتّوں سے نکلنے والا سفید گدلا دودھ جیسا رس (لیٹیکس) ہے۔ اس نسل میں بہت سی اقسام ہیں، جن میں سے کچھ بڑے جھاڑی نما درخت ہوتے ہیں جبکہ کچھ چھوٹے جڑی نما پودے، اور بعض اقسام بہت زہریلی بھی ہیں ۔ دوا کے طور پر برصغیر میں سب سے زیادہ جس قسم کا استعمال رائج ہے وہ (Euphorbia hirta ) ہی ہے۔
دودھی بوٹی کا تنا لمبا مگر پتلا اور شاخ دار ہوتا ہے، اکثر سرخی مائل یا ہلکا سبز۔ تنا کی سطح پر بال نما خشکی یا بال نما کوٹنگ ہوتی ہے۔ جب تنا یا کوئی شاخ توڑی جاتی ہے تو اس سے سفید، گاڑھا رس نکلتا ہے جو جلد کو ہلکا جلا یا خارش دے سکتا ہے۔ اس کے پتے چھوٹے، بیضوی سے لمبے بیضوی شکل کے، کنارے ہلکے دندانے دار، دونوں سطحیں بالوں سے ڈھکی ہوتی ہیں۔ پتّے عموماً جوڑے میں لگتے ہیں اور کبھی کبھار تہائی سائز کے قریب ہوتے ہیں۔ اس کے پھول عام طور پر پھول بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور گچھوں کی صورت میں پتّوں کے بغل میں مرتّب ہوتے ہیں۔ Euphorbia کی مخصوص ساخت میں چھوٹے نارنجی/پیلے یا سبز مائل ‘سُیاچِیا/سائاتھیا’ نما پھول ہوتے ہیں جو نظر سے چھپے محسوس ہوتے ہیں۔ اس کا پھل تین لوبز والا چھوٹا کیپسول ہوتا ہے، بیج بہت چھوٹے گول ہوتے ہیں۔اس کا ذائقہ کڑوا اور تیز ہوتا ہے۔ اس کا رس جلد پر جلن پیدا کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دوب گھاس
یہ بھی پڑھیں: دندان فیل / ہاتھی دانت
یہ بھی پڑھیں: جنکو بائیلوبا

دیگر قریبی اقسام اور فرق
دودھی (Euphorbia) جنس میں بہت سی اقسام ہیں، جن میں دو عام طور پر زیرِ بحث اقسام یہ ہیں:
1۔پہلی Euphorbia neriifolia: یہ ایک بڑا جھاڑی نما یا چھوٹا درخت بننے والا پودا ہے، تنا موٹا اور زیادہ دیرپا ہوتا ہے۔ اس کا لیٹیکس توانائی بخش مگر زیادہ جارحانہ ہوتا ہے اور روایتی طور پر مختلف اشکالِ امراض میں مستعمل رہا ہے۔ یہ علاجی مقاصد میں علیحدہ مقام رکھتا ہے اور ظاہر و باطن کے استعمالات میں فرق ہوتا ہے۔
2۔دوسری Euphorbia thymifolia: یہ چھوٹی قد کی قسم ہے، روایتی طور پر پیچش، اسہال اور آنتوں کے کیڑے کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔ اسے Euphorbia hirta سے سائز اور پتیوں کے لحاظ سے جدا کیا جاتا ہے۔
مختصر فرق یہ ہے کہ E. hirta ایک عام گھاس نما سالانہ پودا ہے، جبکہ E. neriifolia درختی/جھاڑی نما اور بڑا ہوتا ہے، اور E. thymifolia چھوٹی قد والی قسم ہے جن کے طبی استعمالات اور اثرات میں فرق آتا ہے۔ ان کے علاوہ باقی اقسام تقریبا زہریلی ہیں۔
ہزار دانی
بعض کتابوں میں دودھی کو ہزار دانی بھی کہا گیا ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ ہزار دانی عام طور پر (Achyranthes aspera ) کو کہا جاتا ہے، جس کا خاندان اور ساخت Euphorbia سے مختلف ہے۔ہزار دانی Achyranthes کے پودے کی ظاہری ساخت، پھولوں کی قطاریں اور بیجوں کا انداز Euphorbia hirta سے مختلف ہوتا ہے۔ Achyranthes کے بیج سخت اور چبھنے والے ہوتے ہیں جو کپڑوں یا جانوروں کے بالوں میں چپک جاتے ہیں، اسی وجہ سے اسے ’’ہزار دانی‘‘ یا ’’چف فلاور / prickly chaff flower‘‘ کہا جاتا ہے۔ لہٰذا طبّی کتابوں میں دودھی کو ہزار دانی لکھ دینا املا یا تشریح کی غلطی ہے۔

کیمیاوی و غذائی اجزا:
1۔ فلاوونائڈز (Flavonoids)
کوئرسیٹن (Quercetin) کائمپفرول (Kaempferol) رُٹین (Rutin)
لُٹیولن (Luteolin) اپی جینن (Apigenin)
2۔ فینولک مرکبات (Phenolic compounds)
گیلک ایسڈ (Gallic acid) کلوروجینک ایسڈ (Chlorogenic acid) کیفی ک ایسڈ (Caffeic acid)
3۔ ٹرائٹرپینز (Triterpenes) اور اسٹیروئڈز (Steroids)
بیٹا سٹگماسٹرول (β-sitosterol) ٹیرکساسٹرول (Taraxasterol) ایلینولک ایسڈ (Oleanolic acid)
4۔ ٹیننز (Tannins)
گیلوٹیننز وغیرہ
5۔ الکلائیڈز (Alkaloids)
اس میں کچھ نائٹروجن والے مرکبات بھی پائے گئے ہیں (structure-specific reports limited)۔
6۔ ضروری تیل اور لیٹیکس (Essential oils & Latex constituents)
دودھی بوٹی کے دودھ (لیٹیکس) میں diterpenes اور triterpenes پائے جاتے ہیں۔
7۔ دیگر اجزاء
امائنو ایسڈز، شوگرز (گلوکوز، فرکٹوز وغیرہ)، اور معدنیات بھی موجود ہیں۔

اثرات:
دودھی بوٹی محرک عضلات، محلل اعصاب اور مسکن غدد ہوتی ہے۔۔قابض،حابس، مخرج بلغم، مصفی، اثرات کی حامل ہے۔
خواص و فوائد
دودھی بوٹی عضلاتی محرک ہونے کی وجہ سے سوزاک، استحاضہ، لیکوریا، جریان، سیلان الرحم میں مفید ہے۔اس کے علاوہ بلغمی کھانسی، دمہ، نزلہ زکام کے لیے بھی مفید ہے۔مصفی ہونے کی وجہ سے پھوڑے پھنسیوں میں فائدہ دیتی ہے۔ جدید تحقیقات میں اس کے نچوڑ نے خون میں پلیٹ لیٹس بڑھائے اور خون بہنے کا وقت کم کیا ہے۔
دودھی بوٹی صدیوں سے روایتی طب میں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ سانس کی تکالیف جیسے دمہ، کھانسی اور سانس کی تنگی میں اسے مفید سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ سانس کی نالی کو کھولنے اور بلغم کو خارج کرنے میں مدد دیتی ہے۔ معدے اور آنتوں کے امراض میں بھی یہ بوٹی خاص شہرت رکھتی ہے، پیچش، اسہال اور پیٹ کے کیڑوں کے علاج میں اسے کامیابی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پیشاب آور خصوصیات کی بنا پر یہ گردے اور مثانے کی سوزش اور رکاوٹ کو دور کرنے میں معاون ہے۔ جلدی امراض میں بھی یہ ایک مؤثر دوا سمجھی جاتی ہے، پھوڑے پھنسیوں، زخموں اور سوجن پر اس کا لیپ فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ بخار اور عمومی جسمانی کمزوری میں بھی اسے نافع تصور کیا جاتا ہے اور قوتِ مدافعت کو سہارا دینے والا سمجھا جاتا ہے۔

جدید سائنسی و تحقیقی فوائد
دودھی بوٹی (Euphorbia hirta) پر کی گئی سائنسی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس میں بہت سی اہم طبی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس کے پانی اور میتھانولک عرق نے HIV جیسے مہلک وائرس کے خلاف مؤثر روک تھام دکھائی ہے، جس کا بنیادی سبب اس میں موجود tannin ہے۔ تجربات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ پودا آنتوں کے کیڑوں کو ختم کرنے اور ان کے انڈوں کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے، حتیٰ کہ ملیریا پھیلانے والے مچھر کے لاروا اور گھونگھوں کے خلاف بھی قدرتی طور پر مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
یہ پودا ملیریا کے جراثیم Plasmodium falciparum کی افزائش کو بھی روکتا ہے، کیونکہ اس میں ایسے اجزاء موجود ہیں جو ان کی بڑھوتری کو ختم کرتے ہیں۔ زرعی حوالے سے یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ یہ مونگ پھلی کے بیجوں کے اگنے کو کم کر دیتا ہے، یعنی اس میں جڑی بوٹی مارنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کا عرق فصلوں پر پائے جانے والے زہریلے فنگس (aflatoxin) کی پیداوار کو نمایاں طور پر کم کر دیتا ہے، جو اناج اور دیگر غذاؤں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ دودھی بوٹی میں کینسر کے خلیوں کے خلاف ہلکی cytotoxic سرگرمی موجود ہے۔ جانوروں پر تجربات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ جگر کو نقصان سے بچاتی ہے اور ایسے انزائمز کو کم کرتی ہے جو جگر کی خرابی کی علامت ہوتے ہیں۔ خواتین کے لیے اس کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ دودھ بڑھانے میں مدد دیتی ہے، کیونکہ یہ ممالیہ غدود کی نشوونما کو بڑھاتی ہے۔ دوسری طرف، نر جانوروں پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ زرخیزی کو کم کر سکتی ہے، کیونکہ یہ سپرم کی حرکت اور مقدار گھٹا دیتی ہے۔
حوالہ: ijhsr
جسم پر اثرات
- برونکوڈائیلیٹر اور اینٹی اسماتھک: سانس کی نالی کھولنے والا، دمہ و کھانسی میں مؤثر
- اینٹی ڈائریال اور اینٹی اسپاسموڈک: دست اور پیٹ کے مروڑ کم کرنے والا
- اینٹی بیکٹیریل و اینٹی فنگل: بیکٹیریا اور فنگس کے خلاف مؤثر
- اینٹی وائرل: بعض وائرسز کی افزائش کو روکتا ہے
- اینٹی انفلیمیٹری: سوزش اور ورم کم کرتا ہے
- اینٹی آکسیڈینٹ: خلیوں کو آکسیڈیٹو نقصان سے بچاتا ہے
- اینٹی کینسر و اینٹی ٹیومر: بعض تحقیقات میں سرطان کے خلیوں کی افزائش کم کرنے والے اجزاء پائے گئے ہیں
- ہیپاٹو پروٹیکٹو: جگر کو نقصان سے بچاتا ہے
- مدافعتی نظام پر مثبت اثرات: قوت مدافعت بڑھانے میں معاون
حوالہ: پی ایم سی۔

مقدار خوراک:
دو سے تین گرام۔ ضماد کے لیے تازہ پتے۔ قہوہ یا جوشاندہ کے لیے خشک پتے
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Leave a Reply