Emergency Help! +92 347 0005578
Advanced
Search
  1. Home
  2. دودھ
دودھ

دودھ

  • October 11, 2025
  • 0 Likes
  • 16 Views
  • 0 Comments

دودھ

دودھ حیوانات سے نکلنے والی وہ لطیف غذا ہے جو بچے کی پیدائش کے بعد فطری طور پر پستانوں سے خارج ہوتی ہے۔ یہ دراصل خون سے بنتی ہے اور چونکہ خون میں تمام اعضاء کے لیے غذا موجود ہے اس لیے دودھ کو کامل ترین غذا قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کی پرورش کے لیے یہ سب سے موزوں غذا ہے۔

Hakeem Syed Abdulwahab Shah Sherazi

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)

انسانی استعمال کے لیے بہترین دودھ

حکماء کا اصول ہے کہ جن حیوانات کی مدت حمل عورت  کی مدت حمل کے قریب ہو، ان کا دودھ زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر:

گائے کا دودھ بچوں کے لیے سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی مدت حمل تقریباً 9 ماہ ہے۔اور بکری کا دودھ دوسرے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔ عورت کا دودھ زیادہ مائع ہونے کے باعث بغیر گرم کیے بھی استعمال ہو سکتا ہے، لیکن دیگر حیوانات کا دودھ پکا کر پینا چاہیے۔

دودھ کے فوائد

دودھ جسم کو فربہ کرتا ہے اور توانائی بخشتا ہے۔ زہریلی ادویہ مثلاً شوکراں، کچلہ اور پارہ وغیرہ کا تریاق ہے۔ گائے، بکری اور اونٹنی کا دودھ بواسیر، تپ دق اور اعصابی کمزوری میں بے حد مفید ہے۔ اونٹنی کا دودھ سدے کھولتا ہے، مدر بول ہے اور قبض آور بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دودھی بوٹی

یہ بھی پڑھیں: دوب گھاس

یہ بھی پڑھیں: دندان فیل / ہاتھی دانت

دودھ milk दूध

دودھ کا کیمیاوی پہلو

دودھ کا مزاج سرد و تر اور الکلی ہے۔ اسی لیے ترش غذاؤں جیسے لیموں، املی، دہی اور ٹماٹر کے ساتھ اس کا استعمال نقصان دہ ہے، کیونکہ الکلی اور تیزاب کا کیمیاوی تضاد اثر کو باطل کر دیتا ہے۔

بہترین دودھ کی پہچان

  • حیوان جوان، صحت مند اور فربہ ہو۔
  • پستان یا تھن میں کوئی زخم یا ورم نہ ہو۔
  • دودھ تازہ ہو، پرانا نہ ہو۔
  • ذائقہ ترش یا تلخ نہ ہو۔
  • ناخن پر رکھیں تو جلدی نہ پھیلے۔
  • بہتر یہ ہے کہ دودھ دوہنے کے فوراً بعد پی لیا جائے۔

دودھ کا طریقۂ استعمال

دودھ پینے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے تازہ دوہا جانے کے فوراً بعد استعمال کیا جائے، کیونکہ اس وقت اس میں صرف وہی فطری حرارت موجود ہوتی ہے جو بدن کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ یہ حرارت سرد ہونے کے بعد باقی نہیں رہتی۔ اگر دودھ کو دوہنے کے بعد ایک یا دو گھنٹے گزر جائیں تو اسے ہرگز بغیر گرم کیے نہیں پینا چاہیے۔ ایسے دودھ کو دوبارہ گرم کر کے پینا مناسب ہے، اور اگر اس میں کچھ میٹھا (مثلاً شہد یا شکر وغیرہ) شامل کر لیا جائے تو زیادہ فائدہ دیتا ہے اور معدے پر بھی بوجھ نہیں ڈالتا۔

مختلف جانوروں کے دودھ کی کیمیائی ساخت

جزوپانی %پروٹین %چکنائی %لیکٹوز %راکھ (معدنی اجزاء) %
اونٹ86–883.0–3.92.9–5.43.3–5.80.6–0.9
گائے85–873.2–3.83.7–4.44.8–4.90.7–0.8
بھینس82–883.3–3.67.0–11.54.5–5.00.8–0.9
بھیڑ79–825.6–6.76.9–8.64.3–4.80.9–1.0
بکری87–882.9–3.74.0–4.53.6–4.20.8–0.9
انسان88–891.1–1.33.3–4.76.8–7.00.2–0.3

ڈبہ دودھ milk दूध

ڈبہ بند دودھ

ڈبوں میں بند لیکوڈ دودھ اکثر کیمیائی طور پر بنایا گیا مشروب ہے جو صرف ظاہری طور پر دودھ لگتا ہے۔ اگرچہ یہ بیکٹیریا سے پاک اور لمبے عرصے تک محفوظ رہتا ہے، لیکن قدرتی دودھ کی برکت، غذائیت اور تازگی اس میں نہیں پائی جاتی۔

ڈبوں والا لیکوڈ دودھ (UHT یا ری کنسٹیٹیوٹڈ ملک) عموماً قدرتی گائے یا بھینس کے تازہ دودھ سے تیار نہیں کیا جاتا بلکہ یہ زیادہ تر خشک دودھ (Milk Powder) کو پانی اور مختلف کیمیکلز ملا کر بنایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد لمبے عرصے تک دودھ کو محفوظ رکھنا اور بیکٹیریا سے پاک دکھانا ہوتا ہے۔

بنانے کا طریقہ

خشک دودھ کو پانی میں گھولا جاتا ہے۔

پاؤڈر ملک (سکِم یا فل کریم) کو ایک خاص تناسب سے پانی میں ملایا جاتا ہے تاکہ وہ دودھ جیسی شکل اختیار کرے۔

کیمیائی اجزاء  جو شامل کیے جاتے ہیں:

  • اسٹیبلائزرز (Stabilizers): تاکہ دودھ پھٹنے نہ پائے اور لمبے عرصے تک یکساں رہے۔
  • ایمولسیفائرز (Emulsifiers): چکنائی اور پانی کو یکساں ملانے کے لیے۔
  • پرزرویٹیوز (Preservatives): بیکٹیریا اور فنگس کی افزائش روکنے کے لیے۔
  • مصنوعی وٹامنز اور منرلز: مثلاً وٹامن ڈی، کیلشیم سالٹس وغیرہ شامل کر کے اسے “غذائی طور پر مکمل” دکھایا جاتا ہے۔
  • اسٹینڈرڈائزڈ فیٹس یا ویجیٹیبل آئل: بعض کمپنیاں چکنائی کے لیے سبزیوں کا تیل بھی ملا دیتی ہیں۔

ہائی ٹمپریچر پروسیسنگ:

اس کو UHT (Ultra High Temperature) پر چند سیکنڈ کے لیے ابالا جاتا ہے تاکہ جراثیم ختم ہو جائیں۔ اس کے بعد فوراً ٹھنڈا کرکے پیک کر دیا جاتا ہے۔

نقصانات

قدرتی دودھ جیسا نہیں: اصل دودھ میں پائے جانے والے انزائمز اور حساس وٹامنز ختم ہو جاتے ہیں۔

کیمیائی بوجھ: پرزرویٹیوز، اسٹیبلائزرز اور امولسیفائرز انسانی جگر اور معدے پر بوجھ ڈالتے ہیں۔

معدے کے مسائل: بعض افراد میں گیس، قبض، بدہضمی اور الرجی پیدا کر سکتا ہے۔

بچوں کے لیے خطرناک: مستقل استعمال سے بچوں کی قدرتی نشوونما اور قوت مدافعت متاثر ہو سکتی ہے۔

ذائقے میں فرق: یہ دودھ فطری دودھ کے ذائقے، خوشبو اور غذائیت سے محروم ہوتا ہے۔

خشک دودھ milk दूध

خشک دودھ

خشک دودھ آسان، محفوظ اور کئی صنعتوں کے لیے مفید ہے، مگر یہ کبھی بھی قدرتی اور تازہ دودھ کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اس کا محدود اور محتاط استعمال فائدہ مند ہے، لیکن اگر اس پر مکمل انحصار کیا جائے تو جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

خشک دودھ (پاؤڈر ملک) دراصل عام دودھ کو پانی کے بخارات سے خشک کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں دودھ کی نمی ختم کر دی جاتی ہے اور آخر میں باریک سفید یا زردی مائل پاؤڈر حاصل ہوتا ہے، جسے بعد میں پانی میں گھول کر دوبارہ دودھ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ سب سے پہلے انیسویں صدی میں ایجاد ہوا تاکہ دودھ کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھا جا سکے۔

بازار میں خشک دودھ دو بڑی اقسام میں دستیاب ہے:

فل کریم (Full Cream Milk Powder): جس میں چکنائی برقرار رہتی ہے۔

سکِمڈ (Skimmed Milk Powder): جس میں چکنائی نکال دی جاتی ہے، عموماً ڈائٹنگ یا میٹھے بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔

پہچان

خشک دودھ عموماً سفید یا ہلکا زرد رنگ رکھتا ہے۔ خوشبو دودھ جیسی مگر ہلکی سی “بھنی” یا “پکی” مہک بھی آسکتی ہے۔ ذائقہ دودھ سے ملتا جلتا مگر تھوڑا پھیکا یا کبھی کبھار پاؤڈر نما لگتا ہے۔ پانی میں ملانے پر ایک خاص جھاگ بنتی ہے اور مکمل طور پر گھلنے میں تھوڑا وقت لیتا ہے۔ ڈبوں یا پیکٹس میں محفوظ ملتا ہے اور اس پر تیار کرنے والی کمپنی، غذائی اجزاء، اور میعاد ختم ہونے کی تاریخ درج ہوتی ہے۔

نقصانات

  1. قدرتی دودھ کا نعم البدل نہیں: اس میں تازہ دودھ جیسی تازگی، ذائقہ اور بعض حساس وٹامنز (خصوصاً وٹامن سی اور کچھ بی وٹامنز) کم ہو جاتے ہیں۔
  2. کیمیائی اضافے: بعض اوقات محفوظ کرنے کے لیے پریزرویٹیوز یا اسٹیبلائزر ملائے جاتے ہیں جو حساس افراد میں نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
  3. معدے پر اثرات: زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے گیس، قبض یا بدہضمی ہو سکتی ہے۔
  4. زچگی اور بچپن میں مسائل: بچوں کے لیے ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں، اور بار بار فارمولہ دودھ پر انحصار کرنے سے قوتِ مدافعت اور فطری نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔
  5. ذیابطیس اور موٹاپے کا خطرہ: فل کریم پاؤڈر میں چکنائی اور شکر کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ذیابطیس اور موٹاپے والے افراد کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

کیا خشک دودھ میں ملاوٹ یا کیمیکلز ہوتے ہیں؟

یہ بات کمپنی اور ملک پر منحصر ہے۔ کئی ممالک میں معیاری کمپنیوں کا خشک دودھ بغیر کسی کیمیکل کے صرف دودھ کے بخارات سے تیار ہوتا ہے۔ اس میں صرف دودھ کے قدرتی اجزاء (پروٹین، چکنائی، لیکٹوز وغیرہ) ہوتے ہیں۔ جبکہ بعض کمپنیاں اسٹیبلائزرز یا اینٹی کیکنگ ایجنٹس (Anti-caking agents) ملاتی ہیں تاکہ پاؤڈر ڈھیلا نہ ہو اور آسانی سے گھل جائے۔ جیسے E341 (Calcium phosphate) یا E551 (Silicon dioxide)۔ ذائقہ یا “غذائی دعوے” بڑھانے کے لیے مصنوعی وٹامن ڈی، آئرن یا کیلشیم سالٹس شامل کیے جاتے ہیں۔ کچھ کمپنیوں میں اسکمڈ اور فل کریم پاؤڈر کو ملا کر “اسٹینڈرڈائزڈ” پراڈکٹ بنایا جاتا ہے۔

غیر معیاری یا جعلی پراڈکٹس:

بعض جگہ سستا مال بیچنے کے لیے اس میں نشاستہ (Starch)، سویا پاؤڈر یا چاک پاؤڈر تک ملایا جاتا ہے، جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ غیر معیاری یا ملاوٹ شدہ خشک دودھ میں سستا پاوڈر (نشاستہ وغیرہ) شامل ہو سکتا ہے، جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

Important Note

اعلان دستبرداری
اس مضمون کے مندرجات کا مقصد عام صحت کے مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے ، لہذا اسے آپ کی مخصوص حالت کے لیے مناسب طبی مشورے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اس مضمون کا مقصد جڑی بوٹیوں اور کھانوں کے بارے میں تحقیق پر مبنی سائنسی معلومات کو شیئر کرنا ہے۔ آپ کو اس مضمون میں بیان کردہ کسی بھی تجویز پر عمل کرنے یا اس مضمون کے مندرجات کی بنیاد پر علاج کے کسی پروٹوکول کو اپنانے سے پہلے ہمیشہ لائسنس یافتہ میڈیکل پریکٹیشنر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ہمیشہ لائسنس یافتہ، تجربہ کار ڈاکٹر اور حکیم سے علاج اور مشورہ لیں۔


Discover more from TabeebPedia

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

  • Share:

Leave a Reply

Discover more from TabeebPedia

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading