
جھاو
نام :
اردو میں جھاؤ، فارسی میں گز، بنگالی میں جھاؤ، سنسکرت میں جھاؤک، سندھی میں لئی جوون، پنجابی میں پجھی،ہندی میں تمرس،عربی میں اثل یا طرفا کہتے ہیں۔

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)
نام انگلش:
Name: Salt cedar tree
Scientific name: Tamarix aphylla
Family: Tamaricaceae
تاثیری نام: | مقام پیدائش: | مزاج طب یونانی: | مزاج طب پاکستانی: | نفع خاص: |
قابض، مجفف، حابس | ہند و پاک، عرب | خشک سرد | عضلاتی اعصابی | اعصابی امراض |

تعارف:
جھاؤ ایک خودرو پودا ہے جو اب دنیا بھر میں ان مقامات پر ہوتا ہے جو آبپاشی یا زراعت کے قابل نہیں ہوتیں،بنجر صحرائی زمین میں عام طور پر دریا کنارے اگتا ہے۔جھاؤ کا اصل وطن جنوبی یورپ بالخصوص سپین اور جنوبی فرانس ہے۔پاکستان میں جھاؤ کے پودے خاص طور پر دریائے سندھ کے علاقے میں بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔جبکہ ایران اور افغانستان میں بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔جھاڑی نماجھاؤ کا پودا تقریباً دو سے تین میٹر اونچا ہوتا ہے۔اس کی شاخیں اوپر کو پھوٹتی ہیں۔جبکہ تنا لچک دار ہوتا ہے۔ پتے سرو کے پتوں جیسے ہوتے ہیں۔اس کے پھول مٹروں جیسے زرد اور خوشبودار ہوتے ہیں۔ اس میں چھوٹے چھوٹے کسی قدر گول بے ڈھنگے سے پھل لگتے ہیں،جو کڑوے ہوتے ہیں اور کھانے کے کام نہیں آتے۔یہ بڑی مائیں کے نام سے دواؤں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس کا قرآن میں سورہ سبا ء میں ایک مقام پر آیا ہے۔فَأَعْرَضُوافَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ ٱلْعَرِمِ وَبَدَّلْنَـٰهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَىْ أُكُلٍ خَمْطٍۢ وَأَثْلٍۢ وَشَىْءٍۢ مِّن سِدْرٍۢ قَلِيلٍۢ(سبا آیت١٦)۔
جھاو درخت کا تنا پتلا، سخت اور گہرا بھورا یا خاکستری ہوتا ہے۔ تنا نیچے سے لکڑی دار ہوتا ہے جبکہ اوپر کی شاخیں باریک ہوتی ہیں۔ اس کی چھال کھردری، بھوری یا سرخی مائل رنگ کی ہوتی ہے۔اور اس کے پتے بہت چھوٹے، باریک اور سوئی کی مانند ہوتے ہیں، یہ پتوں کی بجائے تنفس کے لیے سبز چھوٹے چھوٹے خلیات پر انحصار کرتا ہے۔اس کے پھول چھوٹے چھوٹے، سفید، گلابی یا سرخی مائل ہوتے ہیں اور جھرمٹ کی صورت میں شاخوں پر نکلتے ہیں۔جبکہ اس کے ساتھ پھولوں کے بعد چھوٹے کیپسول کی شکل کے بیج نکلتے ہیں، جن میں ہلکے روئیں دار بیج ہوتے ہیں۔
جھاؤ کی تین اقسام ہیں۔ 1۔سفید جھاؤ 2۔سرخ جھاؤ 3۔اور کانٹے دار قسم صرف راجستھان میں پائی جاتی ہے۔ جھاؤ کی ٹہنیاں اور چھال قدیم زمانے سے مضبوط ریشہ بنانے کیلئے استعمال کی جا رہی ہیں اور اس ریشے سے رسیاں اور کھردرا کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔ شاخوں سے ٹوکریاں، چھپر،باڑیں اور جھاڑوبنائے جاتے ہیں۔ اس کے تیل کو صابنوں، کاسمیٹکس، اور ہائی کلاس پرفیومز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ الکوحل کے مشروبات اور سافٹ ڈرنکس میں ذائقہ بہتر کرنے کیلئے بھی شامل کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جونک
یہ بھی پڑھیں: جوکھار
یہ بھی پڑھیں: جوز سرو
کیمیاوی و غذائی اجزا:
وٹامنز:
وٹامن کے
معدنیات:
سوڈیم، میگنیشیئم، پوٹاشیئم، کیلشیئم، فاسفورس، نائٹروجن (قلیل مقدار میں)۔
دیگر غذائی اجزاء:
پروٹین، امینو ایسڈز، کاربوہائیڈریٹس۔
طبی کیمیائی اجزاء (Phytochemicals):
ٹینن(Tannins): یہ ایک قدرتی مرکب ہے جو زخموں کو مندمل کرنے، جراثیم کشی، اور سوزش کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جھاؤ میں ٹینن سب سے زیادہ مقدار میں پایا گیا ہے۔
اسٹیروئیڈز(Steroids): یہ مرکبات جسم میں مدافعتی نظام کو متحرک کرنے، سوزش کم کرنے اور ہارمونی نظام کو متوازن کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
فلاوونائڈز(Flavonoids): قدرتی اینٹی آکسیڈنٹس ہیں جو جسم کو فری ریڈیکلز سے بچاتے ہیں، دل کی صحت بہتر بناتے ہیں، اور سوزش و کینسر کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
قلبی گلائیکوسائیڈز(Cardiac Glycosides): یہ مرکبات دل کی دھڑکن کو منظم کرنے اور دل کی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ دل کے امراض میں مؤثر سمجھے جاتے ہیں۔
گیلیک ایسڈ کے ذیلی اجزاء(Gallic Acid By-products): یہ اجزاء اینٹی آکسیڈنٹ، اینٹی بیکٹیریل، اور اینٹی فنگل خصوصیات رکھتے ہیں۔
ایلاجک ایسڈ کے ذیلی اجزاء(Ellagic Acid By-products): یہ بھی قدرتی کینسر مخالف، سوزش کم کرنے والے اور خلیوں کی حفاظت کرنے والے مرکبات ہیں۔

اثرات:
جھاو محرک قلب، محلل اعصاب، اور مسکن غدد ہے۔ قابض، مجفف، حابس اثرات کا حامل ہے۔

خواص و فوائد
جَھاؤ کے پتے اور اسکی لکڑی بڑھی ہوئی تِلّی کو اصلی حالت میں لاتے ہیں۔اس کا لیپ لگاتے ہیں، جوشاندہ پلاتے ہیں، جَھاؤ کی لکڑی کے پیالے میں پانی پینا بھی تِلّی کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔جَھاؤ کے پتّوں کی دُھونی دینے سے زخم خشک ہو جاتے ہیں۔ بواسیری مسّے بھی کچھ دِنوں تک برابر جَھاؤ کے پتّوں کی دھونی دینے سے مرجھا کر گر جاتے ہیں۔ جھاؤ کے پھل قابض اور خون کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ جریان، سُرعت اور سیلان الرحم (لیکوریا) میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ مسوڑھے اگر ڈھیلے پڑ گئے ہوں، دانت ہلتے ہوں تو جھاؤ کے پتوں کا جوشاندہ سے کُلیّاں کرنے سے آرام ہو جاتا ہے۔ گلے کے ورم میں اس کے جوشاندے سے غرارے کرنا بھی مفید ہے۔ اگر کسی زخم سے خون بہہ رہا ہو تو اس کے پتوں اور چھال کی راکھ سے خون کا بہنا بند ہو جاتا ہے۔ استحاضہ (کثرتِ حیض) کی حالت میں اور مرض سیلان الرحم میں اس کا سفوف تیار کر کے کھلانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ بعض علاقوں میں عورتوں میں جنسی تعلق سے قبل، اندام نہانی (Vagina) کی جھلی کو وقتی طور پر تنگ کرنے کے لیے بھی اسے استعمال کیا گیا ہے۔

جدید تحقیقات
اس درخت میں مختلف طبی اثرات پائے گئے ہیں، جیسے:
این آئی ایچ (NIH) کی تحقیقات کے مطابق جھاؤ (Tamarix aphylla) کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں درج ذیل بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے:
ہائی بلڈ پریشر، پیٹ درد، بالوں کا گرنا، کھانسی، دمہ، پھوڑے، زخم، گٹھیا، یرقان، خسرہ، مردانہ کمزوری، فالج، تشنج، برڈ فلو، ذیابیطس، مسوڑھوں اور دانتوں کے امراض، آنکھوں کے انفیکشن، نزلہ و زکام، جلن، چیچک، کوڑھ، تپ دق، حیض کی بے قاعدگی، بخار، اور اندرونی سوزش۔
سوزش کم کرنے والا (Anti-inflammatory)
Tamarix aphylla (جھاؤ) میں قدرتی طور پر ایسے مرکبات پائے گئے ہیں جیسے فلاوونائڈز، ٹینن، اور فینولک ایسڈ، جو سوزش (inflammation)، بخار، اور درد کے خلاف مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق جھاؤ کا عرق جسم میں سوزش پیدا کرنے والے عناصر جیسے TNF-α، ROS، NO اور سائٹو کائنز کی مقدار کو کم کرتا ہے، اور یہ ایک محفوظ، قدرتی اور مؤثر انسدادِ سوزش دوا کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔
زخموں کو جلد بھرنے والا (Wound-healing)
Tamarix aphylla (جھاؤ) کے پتوں، چھال اور دیگر حصوں میں ایسے قدرتی مرکبات پائے گئے ہیں جو زخموں کو جلد بھرنے، سوزش کم کرنے، اور جراثیم کے خلاف لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جھاؤ کے ایتھانولک عرق نے کولیجن کی مقدار میں اضافہ، جلد کی مرمت کی رفتار میں بہتری، اور زخم کے ٹشو کی مضبوطی کو بڑھایا ہے۔ جانوروں پر کیے گئے تجربات میں جھاؤ کے عرق نے زخموں کے بھرنے کے وقت کو 40 فیصد تک کم کر دیا۔ اس میں موجود اینٹی آکسیڈینٹ، اینٹی بیکٹیریل اور سوزش دور کرنے والے اجزاء زخم کو بھرنے کے عمل کو تیز کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر اسے زخم بھرنے کی مؤثر جڑی بوٹیوں کی دوا قرار دیا جا سکتا ہے۔
اینٹی بیکٹیریل سرگرمی (Antibacterial Activity)
Tamarix aphylla (جھاؤ) میں قدرتی اجزاء جیسے ٹینن، فلاوونائڈز، کیمفرول اور دیگر فائٹو کیمیکلز پائے جاتے ہیں جو مختلف خطرناک بیکٹیریا جیسے E. coli، S. aureus، Salmonella وغیرہ کے خلاف مؤثر پائے گئے ہیں۔ اس کے پتوں اور چھال کے میتھانولک اور ایتھنولک نچوڑ نے تجرباتی طور پر کئی اقسام کے ملٹی ڈرگ مزاحم جراثیم کو بڑھنے سے روکا ہے۔ جھاؤ کی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات نے نہ صرف جلدی انفیکشن بلکہ دانتوں کے بائیو فلمز کے خلاف بھی مؤثر کارکردگی دکھائی ہے۔ ان نتائج سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھاؤ کو قدرتی اینٹی بایوٹک کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فنگس کے خلاف (Antifungal)
Tamarix aphylla (جھاؤ) کے چھال اور پتوں کے نچوڑ میں فنگس کے خلاف مؤثر اجزاء موجود ہیں جنہوں نے تجربات میں مختلف خطرناک فنگس جیسے Candida albicans، Aspergillus niger، Fusarium وغیرہ کی افزائش کو نمایاں طور پر روکا ہے۔ خاص طور پر کلوروفارم اور ایتھنولک نچوڑ نے فنگل انفیکشن کے خلاف بہترین کارکردگی دکھائی۔ جھاؤ میں موجود فائٹو کیمیکلز جیسے فلاوونائڈز اور کیمفرول اینٹی فنگل اثرات دکھاتے ہیں۔ ان نتائج کی بنیاد پر جھاؤ کو قدرتی اور محفوظ متبادل اینٹی فنگل دوا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، مگر اس پر مزید سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس کے مؤثر مالیکیولی اثرات اور ممکنہ دوا سازی میں کردار کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
پیریڈونٹل بیماری (Periodontal Disease)
پیریڈونٹل بیماری (مسوڑھوں کی سوجن اور ہڈیوں کا انفیکشن) دانتوں کے بعد دنیا کی دوسری سب سے عام بیماری ہے، جو دانتوں کے گرد بیکٹیریا کی تہہ (بائیو فلم) بننے سے ہوتی ہے۔ ایک سائنسی مطالعے میں یہ ثابت ہوا کہ Tamarix aphylla (جھاؤ) کے پتوں کا نچوڑ ان جراثیموں کے خلاف مؤثر ہے جو دانتوں پر بائیو فلم بناتے ہیں اور پیریڈونٹل انفیکشن کا سبب بنتے ہیں۔ دیگر دو پودے — نیِم (Melia azadirachta) اور کیکر (Acacia arabica) — کے ساتھ مل کر جھاؤ نے ایسے بیکٹیریا کی نشوونما کو روکا جو مسوڑھوں اور دانتوں کے ارد گرد بیماری پیدا کرتے ہیں۔ ان نتائج کی بنیاد پر جھاؤ کو دانتوں کی صفائی اور مسوڑھوں کی حفاظت کے لیے قدرتی علاج کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور اسے دانتوں کی مصنوعات میں شامل کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔
ذیابطیس کے خلاف (Antidiabetic)
aphylla (جھاؤ) ایک ایسا ہی دواؤں کا پودا ہے جس کے پتوں اور چھال میں موجود فائٹو کیمیکلز جیسے گیلک ایسڈ، ایلاجک ایسڈ، کوئرسیٹن، اور ٹامارکسٹین اینٹی آکسیڈنٹ، انسولین بڑھانے اور شوگر جذب کو کم کرنے والی خصوصیات رکھتے ہیں۔ ایک سائنسی تحقیق میں جھاؤ کے پتوں کے میتھانولک نچوڑ کو ذیابیطس کے شکار چوہوں پر آزمایا گیا۔ 21 دن کے تجربے میں روزانہ مختلف مقدار (100، 250، 400 ملی گرام فی کلوگرام وزن) دی گئیں۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ:
خون میں شکر (FBS) کی سطح میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ہیموگلوبن بہتر ہوا اور HbA1c (گلوکوز سے جڑا ہیموگلوبن) کی سطح کم ہوئی۔ کوئی زہریلا اثر یا جانوروں کی موت واقع نہیں ہوئی، حتیٰ کہ 1500 ملی گرام فی کلو تک کی خوراک پر بھی۔ گیلک ایسڈ خاص طور پر جھاؤ میں موجود ایک مؤثر مرکب ہے، جو انسولین کی حساسیت کو بہتر بناتا ہے، آکسیڈیٹیو تناؤ کو کم کرتا ہے، اور ذیابیطس نیفروپیتھی (گردے کی خرابی) سے بچاتا ہے۔ دیگر تحقیق میں گیلک ایسڈ کے میٹفارمین (مشہور ذیابیطس دوا) کے ساتھ استعمال سے IL-6 اور TNF-α جیسے سوزشی مارکرز میں کمی دیکھی گئی۔
سائٹوٹوکسک سرگرمی (Anticancer Effect)
مختلف سائنسی مطالعے ظاہر کرتے ہیں کہ جھاؤ کے پتوں، چھال اور دیگر فضائی حصوں میں موجود فائٹو کیمیکلز جیسے:
(Tamarixetin, Ellagitannins, Gallic acid, Flavonoids) ایسے مرکبات ہیں جو کینسر کے خلیات کی افزائش کو روکتے ہیں، سیل سائیکل کو محدود کرتے ہیں، اور اپوپٹوسس (خلیے کی خودکشی) کو فروغ دیتے ہیں۔تحقیقات کے مطابق Tamarix aphylla میں پائے جانے والے قدرتی مرکبات متعدد کینسر اقسام کے خلیات پر منتخب اور موثر سائٹوٹوکسک اثر رکھتے ہیں، جبکہ عام خلیات پر ان کے مضر اثرات نہایت کم ہوتے ہیں۔ یہ پودا کم لاگت، محفوظ، اور مقامی طور پر دستیاب متبادل anticancer ایجنٹس تیار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، بشرطیکہ اس پر مزید in vivo اور clinical تحقیق کی جائے۔
حوالہ: پی ایم سی، این سی بی آئی، این آئی ایچ
مقدار خوراک:
پانچ گرام
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Leave a Reply