جنڈ / کھیجڑی
نام :
عربی میں الغاف ۔ فارسی میں کهور ایرانی ۔ پنجابی میں جنڈ۔ سندھی میں کنڈی ۔ پشتو میں ڈکائ۔ اور ہندی میں खेजड़ी ۔ تھر کی علاقائی زبان ماروڑای۔راجستان میں کھیجڑی اور شمی کہتے ہیں۔

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)
نام انگلش:
Name: Prosopis cineraria
Scientific name: Prosopis cineraria
Family: Fabaceae
تاثیری نام: | مقام پیدائش: | مزاج طب یونانی: | مزاج طب پاکستانی: | نفع خاص: |
قابض ، حابس، مجفف | ہند و پاکستان | خشک گرم | عضلاتی غدی | اعصابی و بلغمی امراض |

تعارف:
جنڈ کھیجڑی ایک درمیانے قد کا کانٹے دار درخت ہے جو زیادہ تر خشک اور ریگستانی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کا تنا مضبوط اور چھال خاکی یا سرمئی مائل بھوری رنگ کی ہوتی ہے۔ اس کے پتّے چھوٹے، گول اور جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں سبز رنگ کے ننھے پھول آتے ہیں، جبکہ پھلیاں سبزی مائل زرد ہوتی ہیں جنہیں مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ درخت تیز گرمی اور پانی کی کمی برداشت کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ درخت زیادہ تر راجستھان، ہریانہ، پنجاب، سندھ، بلوچستان، ایران، افغانستان اور عرب ممالک میں پایا جاتا ہے۔ عرب دنیا میں اس کو “ملک کا قومی درخت” بھی مانا جاتا ہے (متحدہ عرب امارات نے “الغاف” کو قومی درخت قرار دیا ہے)۔ یہ مٹی کو زرخیز بناتا ہے اور صحرائی ماحولیات کو سہارا دیتا ہے۔ کھیجڑی کا درخت نہ صرف مقامی ماحولیاتی نظام بلکہ انسانی زندگی میں بھی اہم مقام رکھتا ہے۔جنڈ کی جڑیں بہت گہرائی میں ہوتی ہیں۔کیکر کے کانٹے بڑے بڑے ہوتے ہیں جبکہ جنڈ کے کانٹے بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ جنڈ کے درخت کی پھلی کو سانگری کہتے ہیں، جو پکنے پر میٹھی ہوجاتی ہے اور اس کی سبزی بنائی جاتی ہے. اس کے پتے اور چھال بھی مختلف عوامل میں استعمال ہوتے ہیں اور یہ درخت جانوروں کے لیے بھی مفید ہے.
یہ بھی پڑھیں: خرفہ / قلفہ، کلفہ ساگ
یہ بھی پڑھیں: خربوزہ کے بیج
یہ بھی پڑھیں: خربوزہ

کہا جاتا ہے جس آدمی کے پاس ایک بکری، ایک اونٹ اور ایک جنڈ کا درخت ہو تو قحط کے زمانے میں بھی موت اس تک نہیں پہنچ سکتی۔اس درخت کی ایک عجیب خصوصیت یہ بھی ہے کہ جس فصل میں یہ درخت لگا ہو وہاں فصل اچھی ہوتی ہے، باقی درختوں کا سایہ فصل نہیں ہونے دیتا لیکن اس درخت کے سائے میں فصل اچھی ہوتی ہے۔اس درخت کی ہر چیز انسانوں اور جانوروں کے کام آتی ہے، اس کی پھلیاں جنہیں سانگڑی کہتے ہیں انسان اور جانور کھاتے ہیں، اور یہی پھلیاں اور پتیاں زمین کو کھاد بھی فراہم کرتی ہیں۔اس کی لکڑی فرنیچر بنانے کے کام آتی ہے۔

جنڈ درخت کے لیے قربانی:
بشنوئی ہندو دھرم کا ایک مذہبی گروہ ہے جس کی بنیاد پندرویں صدی میں سنت جمبیشور جی مہاراج نے رکھی۔ “بشنوئی” کا مطلب انتیس ہے کیونکہ ان کے ماننے والے سنت کے بتائے ہوئے 29 اصولوں پر عمل کرتے ہیں، جن میں سچائی، سادگی، جانوروں اور فطرت کی حفاظت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ برادری زیادہ تر راجستھان اور ہریانہ میں آباد ہے اور ماحولیات کے تحفظ میں اپنی لازوال قربانیوں کے باعث دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے۔ 1730ء میں جودھپور کے قریب کھیجڑلی گاؤں میں جب درخت کاٹنے کا حکم دیا گیا تو ایک بیشنوئی خاتون امرتا دیوی نے درخت کی حفاظت کے لیے اس سے لپٹ کر جان قربان کر دی اور ان کے ساتھ 363 بشنوئی مرد و خواتین نے بھی اپنی جانیں دے کر درختوں کو بچایا۔ یہ قربانی ماحولیاتی تاریخ میں ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتی ہے۔

کیمیاوی و غذائی اجزا:
وٹامنز
وٹامن اے: 25 مائیکروگرام وٹامن سی: 15 ملی گرام وٹامن ای: 1.2 ملی گرام وٹامن کے: 5 مائیکروگرام
تھامین (B1): 0.12 ملی گرام رائبوفلاوین (B2): 0.08 ملی گرام نایاسین (B3): 0.9 ملی گرام
پائریڈوکسین (B6): 0.15 ملی گرام فولیٹ (B9): 35 مائیکروگرام
منرلز
کیلشیم: 120 ملی گرام آئرن: 5 ملی گرام میگنیشیم: 45 ملی گرام پوٹاشیم: 340 ملی گرام زنک: 1.2 ملی گرام
فاسفورس: 110 ملی گرام کاپر: 0.35 ملی گرام
دیگر غذائی اجزاء
پروٹین: 17 گرام ریشہ (Dietary Fiber): 8 گرام قدرتی شکر: 12 گرام چکنائی: 2.5 گرام
فعالی مرکبات (Phytochemicals)
فلیوونائڈز (Flavonoids):
کویرسیٹن (Quercetin) لیوٹولین (Luteolin) ایپی جینن (Apigenin)
سی-گلیکوسائل فلیوونز (C-glycosyl flavones):
شافٹوسائیڈ (Schaftoside) آئیسو شافٹوسائیڈ (Isoschaftoside) ویسینن دوم (Vicenin II)
وائٹیکسن (Vitexin) آئیسو وائٹیکسن (Isovitexin)
دیگر مرکبات:
ٹیننز (Tannins) الکلائیڈز (Alkaloids) گلائیکوسائیڈز (Glycosides)
فینولک ایسڈز (Phenolic acids) انتھوسیاننز (Anthocyanins) کوینونز (Quinones)
ٹرائی ٹرپینوئیڈز (Triterpenoids)

اثرات:
جنڈ عضلات میں تحریک، اعصاب میں تحلیل اور غدد میں تقویت پیدا کرتا ہے۔ قابض، حابس، مجفف اثرات رکھتا ہے۔
خواص و فوائد
جنڈ کا ضماد اعضاء میں خشکی پیدا کرتا ہے۔ کھلانے سے معدہ اور آنتوں پر بھی قابض اور مقوی اثر ہوتا ہے۔ یہ اعضاء سے خون بہتنے کو روکتا ہے، اسہال بند کرتا ہے۔ بطور پاوڈر ملنے سے دانتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ اسے بطور غذا کے کھایا جاتا ہے۔ یہ ملیریا اور ڈینگی بخار میں بھی مفید ہے۔
کھیجڑی یعنی جنڈ کو دوا کے طور پر صدیوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی چھال: تپ دق، کھانسی، جلدی امراض اور زخموں کے لیے مفید مانی جاتی ہے۔پتے: آنکھوں کی بیماریوں، سوجن اور جوڑوں کے درد میں لگائے جاتے ہیں۔ پھلیاں: خوراک اور توانائی کا ذریعہ ہیں، مویشیوں کے چارے کے طور پر بھی اہم ہیں۔ جڑیں: پرانی کھانسی اور گلے کے امراض میں استعمال ہوتی ہیں۔ بیجوں میں پروٹین، فائبر، اور تیل پایا جاتا ہے۔ یونانی و آیورویدک طب میں ان کا استعمال ہاضمہ بہتر کرنے اور توانائی دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ بیجوں سے حاصل ہونے والا سفوف یا عرق بعض مقامی علاقوں میں دوا اور غذائی ضمیمہ (supplement) کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔

جدید سائنسی و تحقیقی فوائد
یہ درخت فطرت، طب اور سائنسی دنیا تینوں میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لیے بشنوئی برادری نے اس کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کیں۔
جدید تحقیق کے مطابق Prosopis cineraria کئی فوائد کا حامل ہے، جیسے:
- ملیریا کے خلاف (antiplasmodial)
- بخار کم کرنے والا (antipyretic)
- سوزش کم کرنے والا (anti-inflammatory)
- جراثیم کش (antimicrobial)
- سرطان مخالف (anticancer)
- ذیابیطس مخالف (antidiabetic)
- زخم بھرنے والا (wound healing) غذائیت بخش اجزاء سے بھرپور (پھلیوں میں پروٹین اور معدنیات وافر ہوتے ہیں)
حوالہ: این آئی ایچ۔

مقدار خوراک:
بطور غذا تازہ پھلیاں، حسب ضرورت۔ چھال، جڑ، پتے خشک پانچ سے دس گرام بطور دوا
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Leave a Reply