Emergency Help! +92 347 0005578
Advanced
Search
  1. Home
  2. تمام حکماء توجہ فرمائیں!
تمام حکماء توجہ فرمائیں!

تمام حکماء توجہ فرمائیں!

  • October 18, 2024
  • 0 Likes
  • 81 Views
  • 0 Comments

تمام حکماء توجہ فرمائیں!

ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے کلینکس جہاں بھی ہوں، چاہے بازار میں، چاہے گلی محلے میں، اور ایک محلے میں تین تین کلینک بھی ہوں ان پر شام کے وقت

رش بنی ہوتی ہے، جس سے لوگ بھی مستفید ہوتے ہیں اور ڈاکٹر بھی لاکھوں کماتے ہیں۔اس کے برعکس دواخانے خالی پڑے ہوئے ہیں۔

Hakeem Syed Abdulwahab Shah

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ)

میں نے اس پر کافی غوروحوض کیا اور میرے سامنے دو باتیں آئی ہیں، اگر ہم ان پر توجہ دیں تو عوام کو بھی فائدہ ہوگا اور حکیموں کو بھی فائدہ ہوگا۔
پہلی بات یہ ہے کہ امراض دو طرح کے ہیں، ایک وقتی امراض، اور دوسرے دائمی امراض۔ دائمی امراض سے مراد ایسے امراض ہیں جو کسی آدمی کے کاروبار، دفتر اور روز مرہ کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتے، جیسے شوگر، بلڈپریشر، مردانہ کمزوری، معدے کے امراض وغیرہ وغیرہ۔ وقتی امراض سے مراد وہ امراض ہیں جو آدمی کو اس کے دفتر، دکان، کاروبار سے چھٹی کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور آدمی کے کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں، جیسے بخار، جسم میں درد، کھانسی، الٹیاں، موشن وغیرہ وغیرہ۔
حکیم عام طور پر ان وقتی امراض کا یا تو علاج نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو ان کی دوائی مریض کو فوری ریلیف نہیں دیتی چنانچہ لوگ جب ان وقتی امراض کا شکار ہوتے ہیں تو فورا کلینک کا رخ کرتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے وہاں انجیکشن، ڈرپ، گولیوں یا سیرپ کی صورت میں جو بھی دوا دی جائے گی میں اسے استعمال کرکے ایک دو دن میں ٹھیک ہو جاوں گا اور پھر میں اپنی دکان کھول سکوں گا، اپنے دفتر جاسکوں گا۔لہذا تمام حکماء باہمی مشاوت سے ایسے نسخہ جات اور ادویات پر توجہ دیں، اور اپنے تجربات سے گزار کر ایک دوسرے سے شیئر کریں اور پھر اپنے دواخانے کو شام کے مریضوں کے علاج کے لیے بہترین علاج گاہ بنائیں تو دواخانوں پر بھی رش لگ سکتا ہے۔
دوسری بات جو دواخانوں کے پیچھے رہ جانے کی ہے وہ یہ ہے کہ دواخانہ ایک پروفیشنل علاج گاہ کی صورت میں نہیں ہوتا، بس ایک عام سی دکان کرائے پر لے کر باہر بورڈ لگا دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کلینکس پر ڈاکٹر پہلے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، ٹائل، ماربل، اور اچھی کوالٹی کے شیشے ، اور مہنگے اور بارعب فرنیچر کا استعمال کرتے ہیں، ڈاکٹر کی صرف کرسی تیس سے چالیس ہزار والی ہوتی ہے، پھر خود ڈاکٹر کلینک آنے سے پہلے اچھی طرح نہا دھو کر، اگر داڑھی نہیں تو شیو کرکے ، اپنے خط بنا کر، بالوں اور داڑھی کو شیمپو سے دھوکر، روازانہ نیا صاف ستھرا جوڑا پہن کر، اور پھر اس جوڑے کے اوپر ڈاکٹروں کا خصوصی سفید کوٹ پہن کر کلینک میں آتے ہیں، جن سے ان کی ایک پروفیشنل لک بنتی ہے، چنانچہ مریض ڈاکٹر کے سامنے آکر صرف اپنی بیماری بتاتا ہے اور مزید کوئی فضول بات نہیں کرتا، مثلا دوائی میں رعایت کردیں، فیس آدھی کردیں، اس دوائی سے ٹھیک ہونے کی گارنٹی ہے؟ اس دوائی کے سائیڈ ایفکٹس تو نہیں ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ بس چپ چاپ جو ڈاکٹر دے مریض لے کر چلا جاتا ہے۔
اس کے برعکس عام طور پر حکماء نہ دواخانے کی بہتری پر توجہ دیتے ہیں اور نہ اپنے لباس اور اپنی لک پر توجہ دیتے ہیں، نہ صفائی کا خیال رکھتے ہیں اور نہ اپنے وقت کے قیمتی ہونے کا۔
اب آپ کہیں گے حکیم بچارے غریب ہوتے ہیں وہ کلینک پر لاکھوں خرچ نہیں کر سکتے، تو بھائی وہ اوپر جو پہلی بات بتائی ہے، اس پر غور کریں، اگر ہم وقتی امراض کو فوری علاج دریافت کرلیں اور اپنے دواخانوں میں شام کے مریضوں کا رش بنا لیں تو پھر لاکھوں کمائیں گے لاکھوں کھائیں گے بھی اور لاکھوں اپنے دواخانے اور اپنے لباس پر لگائیں گے بھی۔
اس لیے اس ویب سائٹ کی وساطت سے تمام حکماء غور و حوض کرکے ایسے نسخے تیار کریں جو وقتی امراض، کھانسی، بخار، گلا، پیٹ، جسم درد، تھکاوٹ کا علاج کرسکیں، پھر ان کا عملی تجربہ کریں اور ایک دوسرے سے شیئر کریں۔

Important Note

اعلان دستبرداری
اس مضمون کے مندرجات کا مقصد عام صحت کے مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے ، لہذا اسے آپ کی مخصوص حالت کے لیے مناسب طبی مشورے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اس مضمون کا مقصد جڑی بوٹیوں اور کھانوں کے بارے میں تحقیق پر مبنی سائنسی معلومات کو شیئر کرنا ہے۔ آپ کو اس مضمون میں بیان کردہ کسی بھی تجویز پر عمل کرنے یا اس مضمون کے مندرجات کی بنیاد پر علاج کے کسی پروٹوکول کو اپنانے سے پہلے ہمیشہ لائسنس یافتہ میڈیکل پریکٹیشنر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ہمیشہ لائسنس یافتہ، تجربہ کار ڈاکٹر اور حکیم سے علاج اور مشورہ لیں۔


Discover more from TabeebPedia

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply

Discover more from TabeebPedia

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading