
بائے کنبہ
نام :
بنگالی میں کمہی۔سنسکرت میں کنبھی۔ اور ہندی میں کنبی ( Kumbhi) کہتے ہیں۔

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ)
نام انگلش:
Wild Guava
Scientific name: Careya Arborea Roxb

تاثیری نام:
مقوی معدہ، کاسر ریاح

مقام پیدائش:
ہندوستان، سری لنکا، افغانستان
مزاج طب یونانی:
گرم تر
مزاج طب پاکستانی:
غدی اعصابی
یہ بھی پڑھیں: باو بڑنگ / بائے بڑنگ
یہ بھی پڑھیں: بانس
یہ بھی پڑھیں: بالچھڑ

تعارف:
بائے کنبہ ایک ہندی درخت کا پھل ہے، اس کا درخت توت کے درخت کی طرح ہوتا ہے، اسے جنگلی امرود بھی کہا جاتا ہے، سردیوں میں اس کے پتے سرخ ہو جاتے ہیں۔ جنگلی امرود ایک درمیانے سائز کا پرنپاتی درخت ہے، جس کا قد 20 میٹر تک ہے ۔ یہ سنسکرت کے مصنفین کی کمبھی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ پھل کے اوپری حصے پر موجود کھوکھلی کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے جو اسے پانی کے برتن کی شکل دیتا ہے۔
تھائی لینڈ میں پھولوں اور جوان پتوں کو سلاد سبز کے طور پر کھایا جاتا ہے۔ نوجوان پھل کھانے کے قابل بتایا جاتا ہے، حالانکہ بیج قدرے زہریلے ہوتے ہیں۔
نفع خاص:
مقوی معدہ و امعاء ہے

کیمیاوی و غذائی اجزا:
کیریا آربوریا (Careya arborea) کے 100 گرام کے نمونے میں موجود غذائی اجزاء اور بائیولوجیکل کمپاؤنڈز کی مقدار
معدنیات:
پوٹاشیم: 186 ملی گرام سوڈیم: 22 ملی گرام کیلشیم: 8.8 ملی گرام فاسفورس: 20.4 ملی گرام آئرن: 3.1 ملی گرام

وٹامنز (پتوں میں):
وٹامن سی: 37.13 ملی گرام بیٹا کیروٹین: 19.18 ملی گرام فولک ایسڈ: 0.061 ملی گرام
دیگر غذائی اجزاء (جڑ میں):
کاربوہائیڈریٹس: 43.76 ملی گرام پروٹین: 14.81 ملی گرام
بائیولوجیکل کمپاؤنڈز (چھال میں):
الکلائیڈز: 6.32 ملی گرام ٹیننز: 7.53 ملی گرام فلیوونائڈز: 7.83 ملی گرام سیپوننز: 16.41 ملی گرام

اثرات:
محرک غدد اور مولد صفراء ہے، محلل عضلات اور مسکن اعصاب ہے۔

خواص و فوائد
کاسر ریاح ہونے کی وجہ سے پیٹ کی گیس کو خارج کرتا ہے، مقوی معدہ و امعاء ہے، بواسیر میں مفید ہے، ہاضمے کے مسائل میں بہت اچھی چیز ہے۔ کچھ دیگر ادویہ کے ساتھ ملا کر اس کی گھٹی بنائی جاتی ہے اور بچوں کو پلائی جاتی ہے۔
بائے کنبہ درخت کے تنے کی چھال روایتی طور پر ٹیومر، برونکائٹس، جلد کی بیماری، مرگی ، اسٹرینجنٹ، سانپ کے زہر کا تریاق ، پھوڑے اور السر کے علاج میں استعمال ہوتی ہے[1] ۔ پھلوں کو ہضم کو فروغ دینے کے لیے کاڑھے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پتیوں اور پھولوں کو پیسٹ کی شکل میں استعمال کرکے جلد کی کئی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ یہ اسہال، خونی پاخانہ کے ساتھ پیچش اور کان کے درد کے علاج کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ پتے کا پیسٹ اور گودا پولٹیس کے طور پر استعمال ہونے والے السر کو تیزی سے ٹھیک کرتا ہے اور جڑ کو تپ دق اور کنکال کے فریکچر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مفردات کی اکثر کتابوں میں کئی چیزوں کے بارے لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ جڑی بوٹی سانپ کے زہر کا تریاق ہے۔ ہمیں اس حوالے سے تھوڑا غور کرنے کی ضرور ہے کہ ہم دیکھیں جڑی بوٹی کے اثرات کیا ہیں اور جس سانپ نے کاٹا ہے اس کے زہر کے اثرات کیا ہیں، یہ معلوم کرنے کے بعد ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں بوٹی فلاں سانپ کے زہر کا تریاق ہے۔ ایک ہی جڑی بوٹی ہر سانپ کے زہر کا تریاق نہیں ہو سکتی بلکہ ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ سانپ کے زہر تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیے جاتے ہیں:
1۔ نیروٹاکسن (Neurotoxic venom): یہ اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے، دماغ اور اعصاب کے درمیان رابطے کو متاثر کرتا ہے، جس سے فالج، سانس رک جانا یا موت واقع ہو سکتی ہے۔
2۔ سائٹوٹاکسن (Cytotoxic venom):یہ عضلاتی نظام پر حملہ آوار ہوتا ہے، خلیات کو تباہ کرتا ہے، جس سے ٹشوز (بافتیں) سڑنے لگتی ہیں، اور مقامی سوجن، درد اور ناسور پیدا ہو سکتے ہیں۔
3۔ ہیماٹاکسن (Hemotoxic venom):یہ غدی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے خون کو متاثر کرتا ہے، خون کو جمانے، توڑنے، یا رگوں کو پھاڑنے کا سبب بنتا ہے، جس سے خون بہنا، اعضا ناکارہ ہونا، یا موت واقع ہو سکتی ہے۔اس اعتبار سے یہ سائٹو ٹاکسن زہر رکھنے والے سانپوں کا تریاق ہو سکتا ہےباقیوں کے لیے نہیں۔
بائے کنبہ کا سنسکرت نام، “کُمبھی” ہے۔اس کے پھول سفید یا پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ جنگلی امرود روایتی ہندوستانی ادویات میں ایک بھرپور دواؤں کی تاریخ کا حامل ہے۔ اس کی چھال، پتے اور یہاں تک کہ پھل میں بھی صحت کے لیے ممکنہ فوائد ہوتے ہیں۔ چھال اور پتیوں کو ان کی کسیلی خصوصیات کے لئے جانا جاتا ہے، کھانسی، نزلہ، اور اسہال کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. مسوڑھ، جسے روایتی طور پر “کتھا” کہا جاتا ہے، زخموں، السر اور یہاں تک کہ مرگی کے علاج میں استعمال ہوتا ہے۔
مقدار خوراک:
ایک گرام
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Leave a Reply