
چال مونگرا
نام :
عربی مونجرہ۔ فارسی میں برنج مونگرہ۔ سندھی چانو مونگری۔ ہندی میں चोलमोग्र کہتے ہیں۔

(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ شیرازی)
نام انگلش:
Name: Chaulmoogra
Scientific name: Hydnocarpus wightianus
Family: Achariaceae
تاثیری نام: | مقام پیدائش: | مزاج طب یونانی: | مزاج طب پاکستانی: | نفع خاص: |
محمر، جالی، مصفی خون، دافع جذام | ہند و پاکستان، بنگلادیش | خشک گرم | عضلاتی غدی | جذام، خارش وغیرہ |

تعارف:
چال مونگرا ایک درمیانے قد کا سدا بہار درخت ہے جو زیادہ تر جنوبی ہندوستان (تمل ناڈو، کیرالہ، کرناٹک) اور سری لنکا کے مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس درخت کی اہمیت اس کے بیجوں سے حاصل ہونے والے چولموگرا تیل (Chaulmoogra Oil) کی وجہ سے ہے، جو روایتی طب میں جذام (Leprosy)، جلدی امراض اور دیگر متعدی بیماریوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
چال مونگرادرخت کا قد و قامت: 10 سے 15 میٹر بلند، اس کا تنا بھورا مائل، کھردرا اور درخت کے تنے سے چھال آسانی سے اترتی ہے۔اس کے پتے بڑے، بیضوی یا بیضوی لمبوترے، چمکدار سبز، پتوں کی سطح ہموار اور کنارے ہلکے مڑے ہوئے۔اس کے پھول زردی مائل سفید، خوشبودار نہیں، نر اور مادہ پھول علیحدہ درختوں پر ہوتے ہیں۔اس کا پھل بڑا، گول یا بیضوی، سخت چھلکے والا، جو پختہ ہونے پر پھٹتا ہے۔جبکہ بیج کالے یا گہرے بھورے، سخت چھلکے میں لپٹے ہوئے، جن میں تیل موجود ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چاسکو / چاکسو
یہ بھی پڑھیں: جدوار
یہ بھی پڑھیں: جھڑ بیری / جنگلی بیر

چال مونگرا اور چنبہ میں فرق
چنبہ(Gynocardia odorata) اور چال مونگرا( Hydnocarpus wightianus ) دو الگ الگ درخت ہیں جو اگرچہ ایک ہی خاندان (Achariaceae) سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کے بیجوں سے حاصل ہونے والا تیل (چولموگرا آئل) جذام اور جلدی بیماریوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن ان کے نام، ساخت، مقامِ پیدائش اور فعال اجزاء میں نمایاں فرق ہے۔

چنبہ(Gynocardia odorata) زیادہ تر ہمالیہ اور شمالی بھارت میں پایا جاتا ہے، اس کے پتے دل نما، اور بیج بڑے اور گول ہوتے ہیں، جبکہ چال مونگرا( Hydnocarpus wightianus ) جنوبی بھارت میں ہوتا ہے، اس کے پتے لمبوترے اور بیج بیضوی ہوتے ہیں۔ Gynocardia کے بیجوں میں Hydnocarpic اور Chaulmoogric acid کم مقدار میں ہوتے ہیں، جب کہ Hydnocarpus wightianus میں یہی اجزا زیادہ طاقتور اور مؤثر سمجھے جاتے ہیں، اس لیے دوا سازی میں Hydnocarpus کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
کیمیاوی و غذائی اجزا:
1۔ چکنائی (Lipids / Fatty Acids):
یہ اس کے بیج کا سب سے بڑا جزو ہے جو مجموعی وزن کا 40٪ سے 60٪ تک ہوتا ہے۔ ان میں درج ذیل اہم چربیلے تیزاب (Fatty Acids) شامل ہیں:
- ہائڈنوکارپک تیزاب (Hydnocarpic acid): یہ ایک مخصوص چکروی چربیلا تیزاب (cyclic fatty acid) ہے۔ صرف Hydnocarpus کے بیجوں میں پایا جاتا ہے۔ جذام کے خلاف مؤثر۔ Antileprosy خصوصیات رکھتا ہے۔
- چولموگرک تیزاب (Chaulmoogric acid): جلدی بیماریوں (خاص طور پر جذام) میں مؤثر۔ جلد پر لگانے سے جراثیم کش (antibacterial) اثر ڈالتا ہے۔
- گورلک تیزاب (Gorlic acid): ایک اور مخصوص چربیلا تیزاب۔ Antimicrobial یعنی جراثیم، فنگس اور بیکٹیریا کے خلاف مزاحم۔
- پالمیٹک تیزاب (Palmitic acid): عام چربیلا تیزاب جو دوسرے تیلوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ جلد کو نرم اور نمی بخش بنانے میں مددگار۔
- اولیک تیزاب (Oleic acid): ایک غیر سیر شدہ چکنائی (Monounsaturated fatty acid)۔ دل کی صحت اور جلدی حفاظت کے لیے مفید۔ جلدی تیلوں اور کریموں میں عام استعمال۔دل کی صحت اور جلدی ساخت کے لیے مفید (اگر کھانے میں استعمال ہو تو)۔

2۔. پروٹین
بیجوں میں تقریباً 16% پروٹین موجود ہوتی ہے۔ان پروٹینز کا حیاتیاتی کردار محدود ہے، مگر بیج کے مجموعی وزن میں شامل ہیں۔
3. کاربوہائیڈریٹس
کم مقدار میں پائے جاتے ہیں، اندازاً 5% سے 10%۔
4. وٹامنز
روایتی کھانے کی اشیاء کی طرح اس میں زیادہ وٹامنز نہیں پائے جاتے، تاہم کچھ Fat-soluble وٹامنز trace مقدار میں موجود ہو سکتے ہیں:
وٹامن ای (Vitamin E): بطور antioxidant کام کرتا ہے، جلد پر لگانے سے خلیاتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
وٹامن اے (Vitamin A): trace مقدار میں ممکن ہے، جلدی صحت کے لیے مفید۔
5. منرلز (معدنیات)
محدود تحقیق کے مطابق، بیج میں trace مقدار میں درج ذیل منرلز پائے جا سکتے ہیں:
زنک (Zinc): مدافعتی نظام اور جلدی صحت میں مددگار۔ آئرن (Iron): خون سازی کے لیے مفید۔
میگنیشیم (Magnesium): پٹھوں اور اعصاب کے لیے۔ کیلشیم (Calcium): ہڈیوں کی مضبوطی۔
نوٹ: ان کی مقدار بہت کم ہوتی ہے، اور یہ غذائی سپلیمنٹ کے طور پر نہیں لیے جاتے۔
6. دیگر فعال مرکبات (Bioactive Compounds):
فلاوونوئڈز (Flavonoids) (مضبوط antioxidant خواص)
ساپوننز (Saponins) (مدافعتی نظام کو تحریک دیتے ہیں)
الکلائیڈز (Alkaloids) (کیمیائی طور پر فعال، کبھی کبھار زہریلے بھی ہو سکتے ہیں)

اثرات:
چال مونگرا محرک قلب، محلل اعصاب اور مقوی جگر ہے۔ محمر، جالی، مصفی خون، دافع جذام، مولد حرارت غریزی اثرات رکھتا ہے۔
خواص و فوائد
چال مونگرا بگڑے ہوئے اعصابی امراض مثلا آتشک، جذام، کوڑھ، خنازیر، پھوڑے پھنسیوں میں بہت ہی مفید ہے۔ آتشک کا مرض جب بگڑتا ہے، اور مریض کے اعضاء گلنا سڑنا شروع ہو جاتے ہیں تو اس حالت کو جذام (Leprosy) کہا جاتا ہے۔زمانہ قدیم یہ چال مونگرا جذام کے علاج میں مستعمل ہے۔اس کا تیل ان امراض میں بہت مفید پایا گیا ہے۔اس کی خوراک زیادہ مقدار میں کھانے سے قے اور دست شروع ہو جاتے ہیں، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔
چولمونگرا آئل کو جذام کے علاج کے لیے صدیوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے، خاص طور پر ایشیا میں جہاں اس کی روایتی ادویات میں اہمیت تھی۔ یہ تیل مغربی طب میں 19ویں صدی میں متعارف ہوا، جب برطانوی ڈاکٹر فریڈرک جان موات نے اس کے فوائد دریافت کیے۔ چولمونگرا آئل کو ابتدائی طور پر جلد پر لگایا جاتا تھا یا منہ کے ذریعے دیا جاتا تھا، لیکن اس کے متلی پیدا کرنے کے اثرات کی وجہ سے اس کا استعمال مشکل تھا۔
20ویں صدی کے اوائل میں، وکٹر ہیزر اور دیگر محققین نے اس تیل کو انجیکشن کے ذریعے دینے کا طریقہ وضع کیا، جس سے علاج کی تاثیر بڑھ گئی۔ بعد میں، ایلس بال اور آرتھر ڈین جیسے سائنسدانوں نے چولمونگرا آئل کے ایسٹرز تیار کیے، جو کم تکلیف دہ اور زیادہ مؤثر ثابت ہوئے۔
1920 اور 1930 کی دہائیوں میں چولمونگرا آئل جذام کے علاج کا اہم ذریعہ بنا رہا، لیکن اس کے مضر اثرات اور محدود تاثیر کی وجہ سے اس پر تنقید بھی ہوئی۔ 1940 کی دہائی میں سلفون دوائیوں کے متعارف ہونے کے بعد چولمونگرا آئل کا استعمال ختم ہو گیا،البتہ روایتی طب میں اب بھی استعمال ہوتا ہے۔
مقدار خوراک:
مغز ایک ماشہ۔ روغن پانچ قطرے
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Leave a Reply