Giant calotrope آک
(تحریر و تحقیق: حکیم سید عبدالوہاب شاہ)
نام:
آک/آکھ/مدار
اردو میں آک، آکھ، مدار کہتے ہیں۔ عربی میں عشر۔ فارسی میں خرک، زہر ناک۔ سندھی میں “اک”۔ بنگالی میں آکنڈہ
نام انگلش:
Giant calotrope
Scientific name: Calotropis gigantea
تاثیری نام:
مقام پیدائش:
یہ شمال مغربی افریقہ (ماریطانیہ، سینیگال) جزیرہ نما عرب اور مشرق وسطیٰ سمیت برصغیر پاک و ہند کے بنجر اور صحرائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
مزاج طب یونانی:
تر گرم
مزاج طب پاکستانی:
اعصابی غدی
یہ بھی پڑھیں: Myrtle آس
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی علاقوں کے طبی مزاج
یہ بھی پڑھیں: ادویات کے تاثیری نام اور ان کی تشریح
تعارف:
آک کو انگلش میں ” Calotropis procera” کہتے ہیں۔ لفظ “Calotropis” یونانی زبان سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے “خوبصورت”، جس سے مراد اس کے پھول ہیں۔ جبکہ “procera” ایک لاطینی لفظ ہے جو اس کے پتوں اور تنے پر موجود کٹیکولر موم کا حوالہ دیتا ہے۔
آک مشہور و معروف پودا ہے، جس کے ساتھ بہت ہی خوبصورت پھول اور پھر آم کی شکل کے پھل لگتے ہیں، جب یہ پھل پک جاتا ہے تو اس کے اندر سے اس کے بیج نکلتے ہیں، جو تربوز کے بیج سے ملتے جلتے ہیں، ان کے ساتھ روئی کی طرح کے سفید بال ہوتے ہیں اور ہوا کے ساتھ اڑتے ہوئے دور دور تک جاتے ہیں۔ آک کی ٹہنیوں اور پتوں کو توڑنے پر ان کے اندر سے سفید دودھ نکلتا ہے، جو زہریلا ہوتا ہے۔اس کے پتے برگد کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں۔
نفع خاص:
محلل، دافع درد، مولد رطوبات
کیمیاوی و غذائی اجزا:
آک چونکہ غذائی پودا نہیں ہے اس لیے اس میں وٹامنز، منرلز وغیرہ کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اس میں کچھ ایسے مرکبات پائے جاتے ہیں جو زہریلے ہیں، جس کی وجہ سے اس کا استعمال صرف ادویات میں کیا جاتا ہے۔جو چیز اس کی فائٹو کیمسٹری کو دلچسپ بناتی ہے وہ ہے پودے کے تمام حصوں سے دودھیا اور زہریلے لیٹیکس کا اخراج۔
اس پودے کا ہر حصہ زہریلا ہے، لیکن تنا (لیٹیکس) اور جڑیں پتوں سے زیادہ زہریلی ہیں۔ اس پودے کے پتوں میں تین زہریلے گلائکوسائیڈز :کیلوٹروپن(calotropin)، کیلوٹوکسین (calotoxin) اور اسچارین(uscharin) ہوتے ہیں، جب کہ اس کے لیٹیکس میں کیلوٹروپن، کیلوٹوکسین اور کیلیکٹن(calactin) ہوتے ہیں، جو کاسٹک ہوتے ہیں اور زہریلے سمجھے جاتے ہیں۔ کیلیکٹن(calactin) زہر اس کے اپنی دفاعی نظام کا حصہ ہے جس کی وجہ سے اس پر کیڑے مکوڑے اور ٹڈی دل حملہ آور نہیں ہو سکتے۔
ان زہریلے مرکبات کے باوجود ادویاتی طور پر اس پودے کے بے شمار فوائد کا انکار نہیں کیا جاسکتا اسی لیے زمانہ قدیم سے لے کر آج جدید سائنس کے دور تک طب یونانی، میڈیکل سائنس سمیت دنیا کے ہر طریقہ علاج میں آک کا استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کے فوائد کو سمیٹا جاتا ہے۔
آک میں بائیو ایکٹیو مرکبات جیسے الکلائیڈز(alkaloids)، گلائکوسائیڈز(glycosides)، فلیوونائڈز(flavonoids) اور ٹیرپینائڈز(terpenoids) شامل ہیں۔
اثرات:
اس کا دودھ لازغ (خراش پیدا کرتا ہے)۔ اکال (عضو کو کھانے والا)ہے۔ مقی (قے لانے والا)، ملین (پیٹ کو نرم کرنے والا) ، مولد رطوبات، مخرج صفراء و حرارت، مسکن دردہے۔
آک کے دودھ میں زہریلے مرکبات ہوتے ہیں جیسے کارڈیک گلائکوسائیڈز (cardenolides)، جو زیادہ مقدار میں کھائے جانے پر دل اور اعصابی نظام کو متاثر کر سکتے ہیں۔
خواص و فوائد
دافع درد، محلل ، مولد رطوبات ہے۔ اس کا دودھ داد، چنبل، بواسیری مسوں پر لگانے سے شفا دیتا ہے۔ اس کا دودھ ایک حصہ اور سرسوں کا تیل تین حصے پکائیں، اور پھر جوڑوں یا کمر درد کی جگہ پر لگانے سے آرام آتا ہے۔ مولد رطوبات ہونے کی وجہ سے خشکی اور تیزابیت کے امراض میں نہایت ہی مفید ہے، مثلا خشک کھانسی، دمہ، معدہ اور آنتوں کی خشکی وغیرہ۔
مقدار خوراک:
عام حالت میں آک کو کھانا نقصان دہ ہوتا ہے، صرف بیماری کی صورت میں طبیب کی ہدایت کے مطابق بامر مجبوری ایک سے دو قطرے شیرمدار کے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔اگر کوئی غلطی سے زیادہ کھا لے تو اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے کوئی بھی ترش چیز کھا لیں، اس کا اثر زائل ہو جائے گا۔
طب پاکستانی میں آک کا مشہور مرکب “6تریاق” ہے۔ ایک گرام آک کا دودھ، 15گرام ہلدی میں ہلکا سا گرم کرکے خوب کھرل کریں۔ معدے اور آنتوں میں خشکی اور تیزابیت سے پیدا ہونے والے امراض، ایچ پائیلوری، آنتوں کی سوزش وغیرہ میں مفید ہے۔
Discover more from TabeebPedia
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
Leave a Reply